اس میں کوئی شک نہیں، کہ عوام ایک واحد ادارے فوج سے نہ صرف پیارکرتے ہیں، بلکہ دل سے احترام بھی کرتے ہیں، ایک ایسی خوبی جو دنیا بھر کی افواج سے اور خصوصاً بھارتی فوج سے ممتاز کرتی ہے، وہ ہے، یہ خوبی کہ افواج پاکستان کے جوان، اور افسر بھی فوج کے جان بازہونے کی حیثیت سے ایک دوسرے پہ جان چھڑکتے ہیں اور اپنے ادارے کے خلاف کسی تبصرے کو پسند نہیں کرتے، ادارے کے ساتھ انسیت بدرجہ اتم ان میں پائی جاتی ہے، اس کی ایک مثال بلکہ ایک حقیقت بھری آپ بیتی سے آپ میری بات آسانی سے سمجھ سکیں گے، میری ذاتی دوستی بریگیڈیئرقمر زمان خان کی تعیناتی سے پہلے جو بریگیڈیئر آصف محمود صاحب تھے، ان سے بڑی پرانی تھی، بلکہ ان سے پہلے بریگیڈیئر بشیر صاحب، ان سے پہلے کمانڈر آرڈیننس میجر جنرل نصیر احمد مرحوم تو نہ صرف دوست بلکہ میرے ہمسائے بھی تھے۔ میں خاص طورپر بات کررہا تھا، بریگیڈیئر قمر الزمان خان کی اپنے ادارے سے پیار کی، میری ان سے پہلے نہ صرف اکثر بات ہو جاتی تھی، بلکہ تبادلہ خیالات کے علاوہ MEMES FORWAD کا بھی تبادلہ بھی ہوجایا کرتا تھا جو ان کی شگفتہ مزاجی، بذلہ سنجی، زندہ دلی، خوش مزاجی، خوش گفتاری کا واضح ثبوت تھا، خاص طورپر ان کو کتب بینی کا بھی بہت شوق ہے، اور راتوں رات کتاب ختم کرنے کا جنون بھی ان کی خاصی اور خصوصی خاصیت ہے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا بلکہ ایک کتاب بھی بھیجی، جوکہ محکمہ ریلوے کے بارے میں تھی، تو مجھے پتہ چلا اور تفصیل مزید مجھے ملی، کہ ہزاروں میل دور سے آکر انگریزوں نے پورے ہندوستان میں ریلوے کا جال بچھایا، بلکہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ جو سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلند پہاڑی علاقوں میں ہے دوانجن لگاکر ریلوے کے نظام کی بنیاد رکھ کر لوگوں کو حیران کردیا تھا خاص طورپر پہاڑوں کو اور چٹانوں کو کاٹ کر انہوں نے طویل سرنگیں بناکر بھی برصغیر کے پہاڑی علاقوں تک رسائی کرکے عجوبات میں اضافہ کردیا تھا اٹھارہویں صدی میں بنائے گئے اس نظام پہ قمرالزمان صاحب بہت کڑھتے ہیں کہ صدیاں گزر جانے کے بعد ہم نے ریل کی پٹڑی بھی تبدیل نہیں کی، اور نہ ہی سنگل لائین کو ڈبل کیا۔ البتہ صدر جنرل ایوب خان کے زمانے میں اس پہ کام کیا گیا تھا، جنہوں نے خود بھی اس پہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ایندھن والے انجن کے بجائے الیکٹرک انجن خاص طورپر لاہور سے خانیوال تک چلوایا تھا۔
میں ذکر کررہا تھا، بریگیڈیئر ریٹائرڈ قمرالزمان کا اپنے ادارے سے پیار کا، ریٹائر ہونے سے ایسے لگتا ہے کہ گم نام ہوگئے ہیں ان کا بمشکل دو چار سال میں دوچار دفعہ ہی فون آیا ہے، کیونکہ ریٹائر ہونے کے بعد لاہور کے ساتھ ہی شاید دوستوں کو خیر باد کہہ گئے ہیں، وہ میرے ایسے محسن دوست ہیں کہ میں ان کی شخصیت پہ کتاب نہیں تو کتابچہ تو ضرور ہی لکھ کر ان کی قابل دید لائبریری میں ایک اور کتاب کا اضافہ کرسکتا ہوں ان کی فوج سے دل بستگی کو محض سید مظفرعلی شاہ کے اشعار ہی میری دلی ترجمانی کا حق ادا کرسکتے ہیں، ہمیں تو ایسا ہمدم چاہیے، جو قمرزمان خان کی سابقہ عادت اور مزاج کے مطابق
بات سنتا، داستاں کہتا بھی ہو
کاش کوئی رازداں ایسا بھی ہو
ہوکوئی تو جس کو میں دیکھا کروں
مہرباں نا مہرباں جیسا بھی ہو
آج کل "ابھی نندن" کے بارے میں "سالگرہ فتح" منایا جارہا ہے، اور خاص طورپر اس کے پاکستان میں گرفتاری کے بعد کہی ہمارے حسن سلوک، اور کبھی پاکستانی فوج کی پیش کردہ چائے کی تعریف، ہندوستانی فوج کے اس لنگرخانے، جس میں صرف دال اور پانی کی شکل کو چائے کی پتی ڈال کر صرف دودھ کی منہ دکھائی ہوتی ہے اور ہندوستانی فوج کے ایک جوان نے ابھی نندن کی گرفتاری سے پہلے جوانوں کو دی جانے والی چائے، اور لنگر کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی کہ پورا ہفتہ ان کو دال اور سبزیاں پتلے شوربے میں تیرتی ہوئی کھانے پہ مجبور کردیا جاتا ہے، ہم نے سنا ہے کہ پاکستانی فوج کو بہترین لنگر دیا جاتا ہے، لہٰذا ہم ہندوستانی فوج چھوڑ کر پاکستانی فوج میں شمولیت کرنا چاہتے ہیں۔
میں ذکر کررہا تھا، "ابھی نندن" کے جہاز کو گرانے پر پاک فضائیہ کی شاندار اور بروقت کارروائی کرکے اس کے جہاز کو گراکر اسے زندہ گرفتار کرنے کی، لیکن میں ذاتی طورپر یہ سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی سابقہ پاک فوج کی کارروائیوں کو بھی بطریق احسن اجاگر کیا جائے جس کی ابتداءجنرل ایوب خان مرحوم کی 1965ءکی تاریخ ساز تقریر، اور کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ سے شروع کرکے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ تک، قارئین وناظرین کو دکھایا جائے، کہ کس طرح صدرپاکستان ہونے کے باوجود وہ اگلے مورچوں میں اپنے جوانوں کے پاس پہنچ گئے تھے، اور ان کا خون گرمایا تھا، جنرل ایوب خان نے کہا تھا، کہ کافروں کو پتہ نہیں کہ انہوں نے "کس قوم کو للکارا ہے" کروڑوں مسلمانوں کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے ہمارے صبروتحمل کا ہندوستانیوں نے غلط مطلب نکالا، بھارت شروع سے ہی مسلمانوں اور پاکستان کے وجود سے نفرت کرتا ہے یہی بات بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے عملی طورپر کی تھی، اور ابتداءہی میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
1965ءکی جنگ اور 1971ءکی جنگ کی ابتداءجموں وکشمیر کی آزادی کے حوالے سے ہوئی، اور پاکستان کے سابقہ حکمران ذوالفقارعلی بھٹو، نے بھی اقوام متحدہ میں شہرہ آفاق تقریر کرکے اپنی تقریر کے کاغذات کو امریکہ کے خلاف اظہار نفرت کے طورپر پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ اب امریکہ اور پاکستان کے حکمران ایک دوسرے کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، ٹرمپ نے اگر بار بار کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کی ہے، تو پھر عمران خان اس سے جموں وکشمیر کا مسئلہ حل کیوں نہیں کرالیتے؟