Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Kuch Farq To Hona Chahiye?

Kuch Farq To Hona Chahiye?

بازار تو بازار تو ہوتے ہیں مختلف دکانوں سے سجے اور مختلف صارفین سے آراستہ، ایک اور بھی "بازار" ہے جس کا تذکرہ وقت کے بڑے بڑے دانشوروں نے اپنی تخلیقات میں کیا ہے، آغا شورش کاشمیری نے بھی اپنی شہرہ آفاق تصنیف "اْس بازار میں " بھی اہل حکمت و دانش کے لیے بہت کچھ کہہ دیا ہے، یہ الگ بات کہ کچھ تو ایسی عبارت کو خوب سمجھ پاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے سر کے اْوپر اْوپر سے یہ باتیں گذر جاتی ہیں لیکن اْس "بازار" میں بھی وقت کے بڑے بڑے رؤسا نے اپنے بچوں کو تربیت کے لیے بجھوایا اور تاریخ گواہ ہے کہ اْن بچوں نے وہاں سے اچھی تربیت پا کر زندگی کے آداب سیکھے۔

بہرحال بازار بازار ہوتا ہے جہاں اچھے برْے دونوں قسم کے لوگ نظر آتے ہیں بعض شائستہ لب و لہجہ ہوتے ہیں اور بعض ایسے بھی جنہوں نے آئے روز شرفاء کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا ہوتا ہے، ہمیں دْکھ اْس وقت ہوتا ہے جب ہمارے مقدس ادارے مچھلی بازار کا روپ دھار لیتے ہیں اور ایک عام آدمی حتیٰ کہ ایک ریڑھی فروش اور ایک سادہ مزدور اْس وقت ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے جب وہ اِن مقدس اداروں میں بیٹھے اْن اشرافیہ کو جانچتا اور پرکھتا ہے۔

اْس عام آدمی کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان مقدس اداروں کے لوگوں سے کچھ سیکھے مگر انھیں دیکھ کر مارے ندامت کے وہ اپنی بغلیں جھانکنے لگتا ہے کہ ان سے تو بہت بہتر تو میں خود ہوں اگر ان سے میں نے کوئی سبق لیا تو پھر نہ گھر کا رہوں گا نہ گھاٹ کا، بحیثیت لکھاری ہماری نظریں ملک کے تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرکوز رہتی ہیں اور ہم ملک کی قومی اسمبلی سمیت تمام صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کی کارروائیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، پچھلے کچھ دنوں سے ہم اپنے پیارے صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی کارروائی کو بغور دیکھ رہے ہیں۔

یوں محسوس ہوتا کہ ہم کسی اسمبلی میں نہیں بلکہ کسی بازار میں بیٹھے ہیں اور اگر ہم یہ کہیں تو ہر گز بے جا نہ ہو گا کہ ہم شاید "اْس بازار" میں کھڑے ہیں جہاں کوئی بھی شریف آدمی جانے کی جرات تو کیا اْس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا یعنی یہ سیٹیاں تو ہم نے سینما گھروں میں بجتی سنی ہیں یا پھر بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے کے شخص کو متوجہ کرنے یا پھر ٹریفک پولیس کے اْس سارجنٹ کو سیٹی بجاتے سنا ہے جو کسی بھی شخص کو ٹریفک قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے بجا کر متوجہ کرتا ہے، دْکھ ہوتا ہے ایسے رویوں پر کہ ہمارے قانون ساز ادارے اور وہ ادارے جہاں قوم کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔

اْن میں بیٹھے معزز ارکان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنی حرکتوں سے دْنیا کی مہذب اقوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، ہمارے سامنے تو دین مبین اسلام اور ہادی برحق سرکار دو عالم سرور کائنات سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس بطور عظیم ترین نمونہ موجود ہے جنہوں نے صلح حدیبیہ اور دیگر مواقع پر اپنے بلند ترین اخلاق کا مظاہرہ کرکے غیر مسلموں کو اپنا اس قدر گرویدہ کرلیا کہ وہ بھی اْن کے اخلاق اور کردار کے معترف ہو گئے جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ بات بات پر لڑنا جھگڑنا تو ایک طرف ہم لمحوں میں بڑی آسانی سے دوسروں کی پگڑیاں بھی اْچھال دیتے ہیں، اْن پر بڑے مزے سے کیچڑ بھی اْچھالتے ہیں اور الزام تو الزام بہْتان لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ احتجاج اور اظہار کی آزادی نہ صرف ملک کی اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کا حق ہے بلکہ یہ حق قوم کے ہر فرد کو حاصل ہے لیکن احتجاج کا بھی کوئی طور طریقہ کوئی سلیقہ اور کوئی قرینہ ہوتا ہے ہم تو غیر مہذب رویہ اختیار کرتے ہوئے ساری حدیں پار کر جاتے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ کچھ لوگ بڑا مرتبہ پا کر یا اسمبلی جیسے مقدس ایوانوں میں آ کر اپنی اوقات کیوں بھول جاتے ہیں، کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ

وقت و حالات بھول جاتے ہیں

ایک اک بات بھول جاتے ہیں

حد تو یہ ہے کہ لوگ لمحوں میں

اپنی اوقات بھول جاتے ہیں

اگر ہم نے ایک مہذب اور باوقار قوم بن کر اقوام عالم میں اْبھرنا ہے تو ہمیں اپنے روئیے بدلنا ہونگے کیونکہ قومیں اپنے رویوں سے پہچانی جاتی ہیں اگر ہم اپنی ذات اپنے دین اپنے ملک اپنی قوم اور اپنے قومی تشخص سے مخلص ہیں تو ہمیں ایک ایسا ضابطہ اخلاق وضع کرنا ہوگا جو دین مبین اسلام کے اصولوں اور قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔

ہمیں نئے سرے سے سیاست میں آنے والوں اور پھر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر مقدس ایوانوں میں جانے والے ارکان کو باقاعدہ تربیت دینا ہو گی، اِن ارکان کو اْس وقت تک حلف لینے اور اِن مقدس ایوانوں میں جانے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے جب تک یہ کم از کم تین مہینے کے تربیتی کورس میں کامیاب نہ ہو جائیں اس تربیتی کورس میں وطن پاک کی جامعات میں پڑھانے والے عظیم پروفیسرز اور اسکالرز کو بلا کر اِن ارکان کو اْن سے تربیت دلوانا بے حد ضروری ہے ورنہ ملک کے اب تک کے حالات سے بھی بد تر حالات قوم کو دیکھنے پڑیں گے، ہم اگر ترقی کی دوڑ میں اب تک پیچھے رہے ہیں تو اِن سیاسی رہنماؤں کے کیے دھرے کا خمیازہ بھگتتے رہے ہیں۔

افسوس صد افسوس کہ کسی بھی ملک و قوم کی حیات میں ستر سال سے زائد کا عرصہ بہت بڑی مدت ہے مگر ہم اِس مدت میں جہاں کھڑے تھے اور جہاں تھے ہم نے اپنا سفر ترقی شروع کیا تھا اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔ اگر ہمارے یہی منفی معاندانہ رویے رہے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ بفضل باری تعالیٰ ہماری قوم میں بڑی صلاحیتیں ہیں، یہ قومِیں رسولؐ ہاشمی ہیں اِسے اللہ نے بڑی فضیلت دی ہے یہ قوم چاہے تو اقوام عالم کے دلوں پر حکمرانی کر سکتی ہے۔ یہ قوم چاہے تو ملک کو ترقی و خوشحالی کی اوجِ ثریا پر بھی لے جا سکتی ہے مگر یاد رہے اور اپنی ایک مرصہ غزل کہ اس شعر پر آج کے کالم کو تمام کیے دیتے ہیں کہ

میَں نیئرؔ ایک لمحہ رْک گیا تھا

بہت پیچھے رہا ہوں کارواں سے