اٹھارویں صدی مکینیکل صدی کہلائی جاتی ہے جس میں کوئلہ سے پہیا چلا۔ اس دور میں ریلوے انجن ریلوے راستہ، فیکٹریاں، پل اور دیگر چیزیں ایجاد ہوئیں۔ جس سے انسانی زندگی میں انقلاب آیا۔ کپڑا مشینوں میں بننے لگا۔ سمندروں میں کشتیوں کی جگہ بحری جہازوں کا استعمال شروع ہوا۔ جن میں انجن لگے ہوتے تھے اور انکی رفتار میں تیزی آئی۔ ایک جگہ سے دوسرے مقام پر پہنچے میں وقت کم لگنے لگا۔ ہتھیاروں میں ٹینک، توپ خانہ جات کا برملا استعمال شروع ہوا۔ یہ برطانیہ کی صدی کہلاتی ہے۔
گورے افریقہ اور ایشیا سے سستی اجرت پر مزدوروں کو یورپ لے جاتے تھے اور ان سے خوب کام لیتے تھے۔ ایشیائی باشندے جو بہت سادہ اور گاؤں دیہاتوں میں مشکل زندگی گزارتے تھے ان کو قدرے زیادہ محنت کرنا پڑی۔ مگر آسائشیں بھی ملیں۔ پنجاب اور تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان سے خصوصاً کشمیر سے بہت سے لوگ یورپ، فرانس، پرتگال اور دیگر ممالک گئے۔ یورپ کے ممالک نے اس صدی میں افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ملکوں پر قبضہ کرلیا۔
ہندوستان پر انگریز قابض ہوگئے۔ فرانس نے افریقہ کا رخ کیا۔ تیونس، الجزائر، مراکش اور دیگر ممالک پر قبضہ کرکے ان کی دولت کو لوٹا اور یورپ میں 1914میں آسٹر ہنگری اور جرمنی سلطنت عثمانیہ نے مل کر برطانیہ فرانس اور امریکہ سے جنگ لڑی۔ سلطنت عثمانیہ بمشکل تمام موجود ہ ترکیہ بچا سکا۔ شام، مراکش، لبنان اور افریقی ملک فرانس کے قبضے میں چلے گئے۔ یہ دور اٹھارویں اور انیسویں صدی تک چلتا رہا۔
انیسویں صدی میں امریکا نے غیر معمولی ترقی کی اور الیکٹرک دور کہلاتا ہے اور بیسوی صدر امریکا نے اپنے نام کرلی۔ یہ مواصلاتی صدی کہلاتی ہے۔ اس دور میں ہوائی جہاز، ٹیلیفون پھر موبائل فون، انٹرنیٹ سروس اور دیگر چیزیں ایجاد کیں۔ جس نے انسانی زندگی کو آسان بنادیا اور دنیا کو ایک گاؤں یا شہر میں تبدیل کردیا۔ گھنٹوں میں برسوں کا سفر ممکن بنایا۔ رابطہ کاری کا یہ عالم کہ ہزاروں میل دور بیٹھا شخص اپنے دوست یا عزیز واقارب سے ایک لمحہ میں نہ صرف گفتگو کرسکتا ہے۔ بلکہ ان کو حالت موجود میں دیکھ بھی سکتاہے۔ بات کرسکتا ہے تجارت کرسکتاہے۔ اپنے گھروالوں کومطمئن کرسکتاہے۔ ہرقسم کی تجارت کا لین دین کرسکتاہے۔ پھرٹی وی اور ویڈیو کی سہولت کے ذریعہ دنیا بھرسے رابطہ کاری کا کام سرانجام دے سکتاہے۔
آج کل یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور دیگر ذرائع کے مختلف انجن موجود ہیں۔ جس سے ذریعے دنیا بھر سے براہ راست تعلق جوڑا جاسکتاہے۔ فیس بک ایسا ذرائع ہے جس کے ذریعے ہرکس وناکس اپنا پیغام دنیا بھر میں پہنچاسکتاہے۔ سوال میڈم کا ہے کہ وہ کس زبان میں گفتگو کرسکتاہے۔ مگر اس کا حل بھی اب چوتھے دور میں آگیا ہے۔ آپ کسی بھی موجودہ زبان میں گفتگو اور ترجمہ مطلوبہ معروف زبان میں کیا جاسکتاہے اور وہ بھی کوئی وقت ضائع کئے بغیر۔ جیسے اردو میں v logہے اور اس کا ترجمہ آسانی سے انگریزی، فرانسیسی اوردیگر زبانوں میں ہوجاتاہے۔ اس دور میں انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیاہے۔ مگر ساتھ ساتھ بہت سے فساد جنم لے رہے ہیں۔
کتاب کی اہمیت ختم اور علم ودانش سے فیض حاصل کرنے کے راستے معدوم ہورہے ہیں۔ ہرکس وناکس اپنی زبان میں نہ جانے کیا کچھ کررہاہے۔ جس سے دنیا میں انتشار اوربیہودگی، زیادہ پھیل رہی ہے۔ اس میں انسانیت کی خدمت کے پہلو دب رہے، عقل ودانش کو سمجھنا مشکل ہورہاہے۔ تاریخ کو اپنے انداز میں موڑ توڑ کر بتا یا جارہا ہے۔ تحقیق بھی ہورہی ہے اب یہ کیسے جانچا جائے کہ اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ ہے۔ یا اس میں تاریخ کو مسخ کررہاہے۔ ہر کوئی شخص اپنے زاویہ نگاہ سے بول رہاہے اور بولے ہی چلاجارہاہے۔
اکیسویں صدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا دور ہے اور چین کے صدر شی جینگ پینگ کا دعویٰ ہے کہ یہ صدی چین کی ہے جس سے آرٹیفشل انٹیلی جنس کو فروغ دیا جارہاہے اور دیگر ایسی ٹیکنالوجیز آرہی ہیں اور ملک چین ان ٹیکنالوجیز پرزیادہ کام کر رہا ہے۔ برطانیہ کے مشہور جریدے Ecnomics نے چین کو سائنسی سپر پاورمانا ہے اور اپنے سرورق پر اس کی یہ اسٹوری چھپی ہے۔
آئندہ کی جنگوں میں انسانوں کی بجائے روبوٹ جنگ میں حصہ لیں گے۔ پھر سائبر ہے۔ یہ ملکوں کے ہتھیاروں کو منجمد کریگا۔ بینکنگ سیکٹر کو کنٹرول اور مواصلاتی نظام کو در برہم کیا جا سکتا ہے اسی وجہ سے دنیا اس وقت ایک بے یقینی کے دور سے گزر رہی ہے، کہا جارہاہے کہ 2025جنگوں کا سال ہے۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ دنیا کے لیڈر ہوش کے ناخن لیں گے اور ایٹمی جنگ سے بچتے ہوئے چھوٹی یا بڑی جنگیں کرلیں مگر شاید عالمی جنگ سے دنیا کو بچا لیں گے۔
پھر بھی یہ سوال ضرور سامنے رہے گا کہ یہ صدی کس کی ہوگی۔ اس پر امریکا کہتا ہے انیسویں اور بیسوی صدر امریکا کی تھی تو اکیسویں صدر بھی امریکا کی ہوگی۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے 2024میں ہی شی جی پنگ سے کہا کہ وہ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی میں امریکی سائنسدان تندہی سے کام کررہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی 159یونیورسٹیاں اس پر کام کررہی ہیں جبکہ چین کی صرف 29یونیورسٹیز میں اس پرکام ہورہاہے۔ تو چین کیسے دعویٰ کرسکتاہے کہ یہ صدی ان کی ہوگی۔ ایسا باکل نہیں ہے اور اکیسویں صدر کی ترقی بھی امریکا کے نام رہے گی۔
اگرچہ یورپین عوام، دانشوروں اور یونیورسٹی کے پروفیسروں اور میڈیا کے ما لکوں کا اتفاق ہے کہ چین سائنسی اور ٹیکنالوجیز میں امریکا سے آگے بڑھ رہاہے۔ تاحال ہے ان کا یہ خیال ہے کہ چین امریکا سے یا ان جدید ٹیکنالوجیز میں آگے بڑھ گیاہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز ہیں کیا؟ ان میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، کوانٹم کمپیوٹنگ، بورڈ پر کمپیوٹنگ، جدید مواد، بائیو ٹیکنالوجی، میجورا ہیومن، بلاک چین ٹیکنالوجی، فائیو جی اور سکس جی، انٹرنیٹ آف تھنگزاورروبوٹکس شامل ہیں۔
اور دیگر ٹیکنالوجیز نئی ٹیکنالوجی کے ذمرے میں آتی ہیں۔ اس کی ترقی پر ہی دنیا پر بالادستی کا خیال ابھرے گا۔ پاکستان ان ٹیکنالوجیز میں کسی مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔ البتہ وہ مناسب طور پر اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس طرح اس نے 27فروری 2019کو انڈیا کے حملے، 26فروری 2019کے حملے کے جواب میں کیا، انڈیا کے سارے ریڈار منجمد کرکے ان کے جہاز مگ29اور سخوئی 30 گرائے اور ان کا ایک پائلٹ بھی پکڑ لیا۔
پاکستان فضائیہ میں بھی ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کر رہاہے تو بحریہ میں بھی اور بری افواج میں بھی اپنا دفاع کو مضبوط سے مضبوط بنا رہا ہے۔ روزمرہ کے استعمال میں ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنے کی مناسب کوشش کررہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کی دوڑ چین اورامریکا کے درمیان جاری ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ چین اس دوڑ میں کامیاب ہوجائے گا اور اکیسویں صدر چین کی ہی ہوگی۔