Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Imran Aur Establishment Ki Bunyadi Ghalat Fehmi

Imran Aur Establishment Ki Bunyadi Ghalat Fehmi

وزیر اعظم عمران خان سے تقریباً تین سال بعد ملاقات ہوئی۔ یہ ٹھیک اتنا ہی عرصہ ہے جتنا انہیں اقتدار کی مسند پر سرفراز ہوئے ہو چکا ہے۔ ان سے آخری رابطہ بھی اگست کے دوسرے ہفتے میں ہوا جب وہ وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے کی تیاریوں میں تھے، تو انہوں نے مجھے فون کر کے اسلام آباد آنے کو کہا تاکہ بیوروکریسی کے حوالے سے جو میرا تجربہ ہے، اس سے بساط بھر مشورہ دے سکوں، لیکن رات گئے، عون چوہدری کا فون آ گیا کہ خان صاحب مصروف ہو گئے ہیں، اس لئے وہ اب خود بتائیں گے کہ ملاقات کب اور کیسے ہو گی۔ تین سال بعد کی اس ملاقات میں ایک بات نے مجھے حیران نہیں بلکہ پریشان بھی کر دیا۔ میں نے عمران خان صاحب سے کہا کہ پاکستانی سیاست سے آپ مذہبی عنصر (Religious factor) کو اگلے سو سال تک نہیں نکال سکتے۔ میرے سوال پر وہ فوراً تنک کر بولے، کیسے نہیں نکال سکتے۔ یہ دیکھیں مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی، دونوں کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ میرے لئے یہ جواب انتہائی غیر متوقع تھا۔ میں پاکستانی سیاست میں "مذہبی عنصر" کی بات کر رہا تھا اور وہ مذہبی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے جواب دے رہے تھے۔ میں بحث میں اُلجھنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے بات دوسرے موضوع پر چلی گئی۔

یہ درست ہے کہ مذہبی سیاست سے لوگوں کو متنفر کرنے میں جتنا حصہ پاکستان کی مذہبی سیاسی پارٹیوں کا ہے، شاید ہی کسی اور گروہ، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کا ہو۔ جمہوری اور پارلیمانی سیاست کی ساری غلاظتیں ان کے دامن سے لپٹی رہیں اور وہ انہی داغوں کو سینے پر مسلسل سجائے سیاست کرتے رہے۔ لوگ ان سے اسلام کے تحفظ اور نفاذ کیلئے یکسوئی اور جرأت چاہتے تھے، مگر یہ نظام، آئین، جمہوریت، تسلسل، آمریت اور اسٹیبلشمنٹ جیسے بے معنی تصورات کی جنگ میں اُلجھے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طبقہ جو جمہوری اور اسلامی سیاستدان میں کبھی تمیز کیا کرتا تھا، وہ ان کی صفوں سے نکلا اور عام سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو گیا۔ جو زیادہ شدت پسند طبقہ تھا، اسے نائن الیون کے بعد جذبات کے اظہار کیلئے جہاد کا عالمی راستہ مل گیا۔ اس "شدت پسند" طبقے کے نزدیک ہر وہ طاقت، قوت، فوج، حکومت خود ایک طاغوت تھی کیونکہ وہ امریکہ کے طاغوت کا ساتھ دے رہی تھی۔ مذہبی اسلامی پارٹیوں سے رخصت، بالکل ویسے ہی جاری ہے جیسے بھٹو کے خلاف تحریک کے بعد ضیاء الحق کے مارشل لاء لگتے ہی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کی حکومتی حاشیہ آرائیوں کو دیکھ کر وہ تمام لوگ جنہیں مذہبی"ووٹ بینک" کہا جاتا تھا ایسے متنفر ہوئے کہ بکھر گئے اور پھر مذہبی جماعتوں کے پلے صرف چند مسلکی ووٹ ہی رہ گئے۔ پاکستان کی مذہبی سیاست کا یہی پہلو ہے کہ جسے پاکستان کا ہر لیڈر، دانشور، سفارت کار، لکھاری جسے مغرب کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج پیش کرنے کیلئے بیان کرتا ہے۔ اس کے پاس اپنے موقف کی حمایت میں سب سے بڑی دلیل ہی یہی ہوتی ہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں عوام نے ہمیشہ مذہبی سیاسی پارٹیوں کو بری طرح مسترد کیا ہے۔

یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کو مغرب میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ملک میں بھی سیاسی "پوائنٹ سکورنگ" کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اصل حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستانی معاشرت اور سیاست میں "مذہبی فیکٹر" کو کبھی بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کا نعم البدل نہیں سمجھا گیا۔ ہر ذی ہوش و عقل کو اس کا ادراک رہا تھا۔ یہ کج فہمی کبھی کسی ڈکٹیٹر کے دماغ میں پیدا ہوئی اور نہ ہی کسی جمہوری رہنما نے یہ سوچا کہ وہ پاکستانی معاشرے میں موجود ایک مذہبی جذباتی فضاء کے مخالف جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول سیاسی رہنما کون ہو گا اور پیپلز پارٹی سے زیادہ سیکولر، لبرل رجحان والی کونسی پارٹی ہو گی، جس میں ابتداء ہی میں ایسے تمام نابغے شامل ہو گئے تھے جو اس ملک میں "کیمونزم" اور "سرخ انقلاب" کا ہراول دستہ تھے۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی اُنگلیاں چونکہ عوام کی نبض پر تھیں، اسی لئے اس نے "مذہبی فیکٹر" کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ایک متفقہ اسلامی دستور بنوایا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، جمعہ کی چھٹی، ریس کورس اور شراب پر پابندی اور اُمت مسلمہ کو یکجا کرنے کیلئے اسلامی کانفرنس کا انعقاد تک کروایا۔ ضیاء الحق نے اسی "مذہبی فیکٹر" کی بنیاد پر دس سال مزے سے گزارے۔ نواز شریف نے بھی شروع دن سے "مذہبی فیکٹر" کو اپنی سیاست کے پُتلی تماشے میں ڈور کے طور پر استعمال کیا۔ یہ "مذہبی فیکٹر" اس قدر طاقتور ہے کہ بے نظیر کو باوجود خواہش اپنے سر پر دوپٹہ اوڑھنا پڑا۔ ایک طبقہ اسے تبدیلی کی علامت سمجھتا تھا وہ اس سے ناراض بھی رہا۔ عاصمہ جہانگیر نے کوئٹہ کے لاء کالج میں کھڑے ہو کر کہا "ہمیں ایسی بزدل وزیر اعظم کی ضرورت نہیں جو شدت پسندوں سے ڈر کر دوپٹہ نہ اُتار سکے۔"

مگر نائن الیون اور پرویز مشرف یہ دو ایسے کردار ہیں، جنہوں نے پاکستانی سیاست کے اس "مذہبی فیکٹر" کے "پر جوش" دریا کے اُلٹ معاشرے کو بہانے کی کوشش کی۔ حساس موضوعات کو چھیڑا اور ہر ایسے معاملے میں اس "مذہبی فیکٹر" کے مخالف فیصلے کرنے کی کوشش کی۔ عالمی طاقتیں ساتھ تھیں، دہشت گردی کے الزام کی تلوار موجود تھی اس لئے مخالفت کرنے والے کو جب، جہاں اور جس الزام کے تحت چاہا، کچل کر رکھ دیا۔ تمام مراحل کامیابی کی طرف جا رہے تھے۔ ایک گروہ کو فسادی کہہ کر ہستی سے مٹایا جا رہا تھا اور دوسری جانب لوگوں کے سامنے اسلام کی ایک مرنجا مرنج سافٹ امیج کی ترویج جاری تھی۔ ایسے میں وہی غلطی سرزد ہوئی جو عموماً حکمرانوں کے مغرور دماغ سے ہوتی ہے۔ وہ یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ قبائلی علاقہ جات اور سوات پر قابو پانے کے بعد اب ہم ان معاملات کو بھی چھیڑ سکتے ہیں جو حساس ہیں۔ یہ "مذہبی فیکٹر" کسی مذہبی سیاسی جماعت کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کی روایت برصغیر میں بہت پرانی ہے۔ جس کی قریب ترین مثال غازی علم الدین ؒشہید ہے۔ اس کی وکالت قائد اعظمؒ کے ان عظیم کاموں میں تصور ہوتی ہے جو ان کی اسلام سے وابستگی ثابت کرتے ہیں اور علامہ اقبالؒ کے عشقِ رسولﷺ کا تو یہ واقعہ مظہر ہے کہ غازی علم الدینؒ شہید کو میانوالی جیل میں پھانسی دی گئی اور پھر اس کا جسدِ خاکی علامہ اقبالؒ کی ضمانت پر لاہور لایا گیااور ایک بہت بڑے جنازے کے جلو میں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے فقرہ کہا تھا "ترکھاناں کا منڈا بازی لے گیا"۔

یہ ترکھانوں کا منڈا پاکستان کا ہر وہ سیدھا سادھا مسلمان ہے، جو اسلام سے والہانہ محبت رکھتا ہے، شریعت کا نفاذ چاہتا ہے اور حرمتِ رسول پر جان دینے کی آرزو رکھتا ہے۔ یہ ہے پاکستان کا "مذہبی فیکٹر"۔ ٹھیک ایک سو سال بعد جب ممتاز قادریؒ کو پھانسی دی گئی تو اس "مذہبی فیکٹر" کا اظہار کئی گنا دیکھنے کو ملا۔ فرق صرف یہ ہے کہ غازی علم الدینؒ کی شہادت سے کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی تحریک نے جنم نہیں لیا تھا مگر ممتاز قادریؒ نے ایک تحریک اور سیاسی پارٹی کو جنم دیا ہے جس نے اس "مذہبی فیکٹر" کو ایک مستقل سٹیج فراہم کر دیا ہے۔ آج یہ تحریک کالعدم بھی ہے اور سیاسی میدان میں الیکشن بھی لڑ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں افغانستان بدل رہا ہے۔ وہاں شریعت کا پرچم اپنے نفاذ کے آخری مرحلے میں ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر موجود یہ "مذہبی فیکٹر" کسی بھی جانب جا سکتا ہے۔ اور جذباتیت اسے نہ جانے کونسے راستے گامزن کر دے۔ یہ وقت کا سب سے بڑا سوال ہے اور اس سوال کا جو جواب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے پاس ہے۔ وہ حالات سے ناواقفیت کی علامت اور اس بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاست نہیں پنپ سکتی۔ (کل اس پر گفتگو ہو گی)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.