Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aye Kushta e Sitam Teri Ghairat Ko Kya Hua

Aye Kushta e Sitam Teri Ghairat Ko Kya Hua

ارضِ وطن میں تعلیمی انحطاط اظہرمِن الشمس مگر اب فکری انحطاط کے مظاہر بھی جا بجا۔ جب مغرب کی فکری یلغار کے زیرِاثر عالمِ اسلام کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی مرعوبیت کو دیکھتا ہوں تو فشارِ خوں بلند ہو جاتا ہے۔ یہ طبقہ حکمت کی عظیم النظیر کتاب سے رَہنمائی کے بجائے اُن پروردۂ شَب اہلِ مغرب کا لکھا ہی حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ کاش کہ وہ اُس علیم وخبیر کی کتاب کا گہرائی میں جاکر مطالعہ بھی کر لیتے تو اُن پر یہ راز افشا ہوتا کہ اِس کتاب میں اُن کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔

کوئی اُنہیں لاکھ سمجھائے کہ پتھر کبھی گہر بن سکتا ہے نہ کرگس کبھی ہما لیکن یہ ظلمت کو ضیا ثابت کرنے پر بضد۔ یہ سب مغرب کی فکری یلغار کے آگے بند نہ باندھنے کا شاخسانہ ہے۔ مغرب نے تو انقلابِ فرانس کے بعد مذہب کوسیاست سے الگ کردیا لیکن ہمارے مکمل ضابطۂ حیات کے مطابق سیاست دین کے تابع ہے اور بقول اقبال "جُدا ہو دیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی"۔ اہلِ مغرب کی اسی "چنگیزی" کے مظاہر عالمِ اسلام میں جابجا نظر آتے ہیں۔

اہلِ مغرب نے عالمِ استکبار میں محکوم قوموں کویہ باور کرانے کی سعی کی کہ دورِ حاضر میں اسلام قابلِ عمل نہیں اور تہذبیبِ مغرب میں ہی فلاح کی راہ ہے۔ اِس کے علاوہ شعائرِ اسلام اور اسلامی احکام کو مطعون کرنا، اُنہیں تضحیک کا نشانہ بنانا اور اُن کے خلاف نفرت کے جذبات کوہوا دینا اُن کا وتیرہ بن چکا۔ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے وہ شورش ویورش کاہر حربہ آزما رہے ہیں۔ رَبِ لم یزل کاتو حکم ہے "اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی" (سورۃ الانفال آیت 48)۔

حقیقت مگر یہ کہ مسلمان اپنے مغربی آقاؤں کے زیرِ اثر ہرجگہ باہم دست وگریباں۔ ایران عراق جنگ، عراق کی کویت پر چڑھائی، عراق کی بربادی، صدام حسین کو نشانِ عبرت بنانا اور لیبیا کے صدر معمر قذافی کی دردناک موت دیدۂ عبرت نگاہ میں رقم ہوچکی۔ شام میں 3لاکھ سے زائد مسلمان اپنوں ہی کے ہاتھوں تہہ تیغ ہوئے، مصر، لیبیا اور یمن میں بھائی ہی بھائی کاقاتل بنا۔ امریکہ نے نائین الیون کابہانہ بنا کر افغانستان کے پہاڑوں کوڈیزی کٹر بموں سے ریگزاروں میں تبدیل کیا، لاکھوں شہید اور بے گھر ہوئے۔

آج بھی 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ گزین۔ اِس اندھی جنگ میں پاکستان کی معیشت کو 110ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور 80ہزار پاکستانی شہید ہوئے جن میں 8 ہزار پاک فوج کے جری جوان بھی تھے۔ برماکے مسلمانوں کا قتلِ عام اور روہنگیا کے مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد اِس سے الگ۔ اب غزہ میں وحشت وبربریت کاننگا ناچ، ہزاروں خواتین اور بچے شہید ہوئے۔ اسرائیلی درندے کسی کیمپ کو چھوڑتے ہیں نہ ہسپتال کو۔ غزہ میں سوائے بارود کی بُو کے اب باقی بچا ہی کیا ہے۔ اِس کے باوجود بھی ملتِ واحدہ کے بجائے مختلف اوطان میں تقسیم 2ارب نفوس پر مشتمل قومِ مسلم ایک کروڑ سے بھی کم اسرائیلیوں کا ہاتھ روکنے سے قاصر۔ وجہ یہ کہ عالمِ اسلام کے حکمران یاتو دشمنانِ دیں کے مملوک یا پھر حلیف۔

مغرب کی فکری یلغار نے ہمارے نظریات، افکاروکردار اور اطوار میں تشکیک اور تذبذب کاایسا زہر گھولا جو احساسِ کمتری و شکست خوردگی کا سبب بنا اور ہم مغلوب ومعتوب قوم بن کر رہ گئے۔ ہم اسلامی تعلیمات کو قدامت پسندی وتاریک خیالی محسوس کرنے لگے اور قرآنی تعزیرات کو وحشیانہ اور انسانی حقوق کے منافی سمجھنے لگے۔ اِسی فکری یلغار کے سحر میں گرفتار عالمِ اسلام میں ایک ایسا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوچکا جو ایک زمانے میں اپنے سیکولر نظریات کی سرگوشیوں میں بات کیا کرتا تھا مگراب دھڑلے سے قومِ مسلم کے افکار و نظریات کو چیلنج کرتا نظر آرہا ہے۔

اہلِ مغرب شاداں وفرحاں کہ اُنہیں اپنے افکار کی پاسبانی کے لیے اہلِ اسلام ہی سے ایک مضبوط طبقے کی حمایت حاصل ہوچکی جو اُن کے نظریات اور تہذیب وتمدن کا ترجماں۔ ایسے لوگوں کے لیے ہی حکمِ ربی ہے "اے نبی! اِنہیں کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ونامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی وجدوجہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ ٹھیک کررہے ہیں" (سورۃ الکہف آیات 102-03)۔

بدقسمتی سے ہماری دینی درسگاہیں عبادات، اعتقادات، اخلاقیات اور معاشرت کی تبلیغ وترویج تک محدود جبکہ مغرب کی فکری یلغار کی یاتو ہمارے علماء کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں یاپھر اُنہیں اِس کاعلم نہ ادراک۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نسلِ نو کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے سے محروم اور اِسی لیے آج کا نوجوان تقلیدی روش ترک نہیں کرپاتا۔ یہ بھی تلخ حقیقت کہ ہمارے علمائے دیں کو فرقہ واریت سے ہی فرصت نہیں۔ اُن کی صرف درسگاہیں ہی نہیں مساجد بھی فرقوں میں منقسم۔ یہ سب کچھ دیکھ کرہی علامہ اقبالؒ نے فرمایا

فقیہ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دِل کی کشاد

کچھ اہلِ جنوں تاحال موجود جو سنتِ منصور ترک کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی اُنہیں سمجھائے تو کیسے کہ اِس گنبدِ بے دَر میں اُن کے درد کا درماں ممکن نہ اُٹھتی فغاں پر لبّیک کہنے والا ابنِ قاسم موجود مگر اُن کی ایک ہی ضد کہ جلد یا بدیر غزہ کا خون رنگ لائے گا اور کشمیر کی بیٹی کے سَر سے ردا چھیننے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اُن کے نزدیک اِن خستہ تنوں کی دعائیں ایک نہ ایک دن ضرور مستجاب ہوں گی اور رنگ و نور میں ڈوبا روشن و تاباں سپیدۂ سحر نمودار ہوگا۔ یہ عشاق ایسے زرِناب جن کے کاسۂ چشم کی بریق یہ پیغام دیتی ہوئی "تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے" (سورۃ آل عمران آیت 104)۔

یہ اہلِ جنوں درس دیتے ہوئے کہ اللہ ہمارے ساتھ نہیں کیونکہ ہم خود اپنے ساتھ نہیں جبکہ اُس خالق و مالکِ کائنات کا یہ واضح فیصلہ "حقیقت یہ کہ اللہ کسی قوم کاحال نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی")سورۃ الرعدآیت 11)۔ اُن کی جنوں خیزی سے اُبھرتی ہوئی یہ منادی، یہ صدائے جرس کہ جب عرب کے ریگ زاروں پر جہالت کے گھوراندھیرے چھائے ہوئے تھے تب وہیں سے علم و عرفان کی کرنیں پھوٹیں، اخلاق و کردار کے دَروا ہوئے، شرم وحیاکے دیپ جلے اور امن وعافیت کے نغمے گونجے۔ پھر گزرتے وقت کے ساتھ ہم وسوسوں کا شکار ہو کر گُم کردہ راہ ہوئے اور قعرِ مذلت میں جا گرے مگر پھر بھی رَب کی رحمت بیشمار اور دَرِ مراجعت وا۔

تحقیق کہ قومِ مسلم کی حیاتِ نَو ممکن اگر وہ اُسی صراطِ مستقیم پرچل نکلے جس کا حکم اُس لَم یزل نے دیا ہے۔