حکومت سندھ کا کورونا وائرس کے خلاف اعلان جنگ اور صوبہ کو جزوی طور پر لاک ڈاؤن ہوئے، تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہو چلا ہے۔ روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں کورونامریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صحت مند ہونے والوں کی تعداد کو تسلی بخش تو نہیں کہا جا سکتا، بس دل کو تسلی دینے کے مترادف ضرور ہے۔ لوگوں کا رویہ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہم قوم نہیں بلکہ ایک بے ترتیب ہجوم ہیں۔ سوشل میڈیا اور عوامی مہم کے ذریعہ آگاہی دی جا رہی ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ اپنے گھروں کو قرنطینہ ہاؤس کی مکمل شکل دیں۔
اپنے گھر اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔ ہاتھ، منہ، ناک اور آنکھ کے راستہ اس موذی و متعدی وائرس کی پھیپھڑوں تک باآسانی رسائی کا آسان ذریعہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دن میں ہر بیس منٹ کے وقفہ سے ہاتھوں کو صابن یا لیکوڈ اور صاف پانی سے دھوئیں یا سینیٹائززکا استعمال کریں تاکہ ہاتھوں میں لگے ہوئے جراثیم کے اثرات جلد زائل ہو سکیں۔ کھانسنے اور چھینکتے وقت نہایت احتیاط سے کام لیں، جگہ جگہ تھوکنے یا پان کی پیک یا حسب عادت پچکاری مارنے سے پرہیز کریں۔ اس مقصد کے لیے ہروقت جیب میں ٹشو پیپر رکھیں اگر تھوک یا بلغم کی حاجت ہو بھی رہی ہے تو مٹی میں تھوک دیجیے کیونکہ مٹی ایسا عنصر ہے جو ہر قسم کے جراثیم کو زائل کر دیتا ہے۔
کیونکہ جراثیم اڑ کر آپ کی فضا میں شامل ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے نہایت مضر صحت ثابت ہوتے ہیں۔ منہ اور ناک کو صاف ستھرے ماسک سے محفوظ بنائیں۔ سوشل سرگرمیاں یکسر موخر کر دیں، تین فٹ کا فاصلہ رکھیں، ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے سے اجتناب کریں۔ رش والی یا ہجوم والی جگہوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ کھانا کھا کر کھانے کے برتن کھلے نہ چھوڑئیے بلکہ ان کو دھونے کے عمل تک ڈھک دیا جائے۔ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگانے سے شہر کو کچرا کنڈی بنانے سے سختی سے پرہیز کریں۔
ابتدا میں عوام کی جانب سے خاطر خواہ احتیاطی تدابیر اختیارنہیں کی گئیں، مساجد اور شاپنگ کے مراکز میں انسانوں کا رش جوں کا توں رہا۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت چونکہ ریاست کی بنیادی ذمے داری کے زمرہ میں آتی ہیں اس لیے ریاست کی طرف سے کچھ فوری اقدامات اٹھانے کا بیڑہ اٹھایا گیا، جن میں تمام مساجد، امام بارگاہوں میں اجتماعات پر عارضی پابندی شامل تھی۔ یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کی تدفین کو بھی نہایت محدود کر دیا گیا ہے۔ ریاستی پاپندیوں کے باوجود کچھ مساجدمیں چوری چھپے اجتماعات جاری ہیں۔ کچھ عوامی حلقوں کی جانب سے دین پر حملہ کے خدشہ کے سبب مساجد پر عارضی پابندی پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے جو جید علمائے کرام کے تعاون سے بحسن و خوبی حل کر لیے گئے۔
امور خانہ داری سے متعلق خواتین کا کہنا ہے کہ بچوں کے اسکولوں کی بندش اور شوہروں کا گھر میں بیٹھے رہنے سے ان کے گھریلوکاموں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنے اپنے انداز سے احتیاطی تدابیر کا راگ الاپ رہا ہے، خدشہ ہے کہ لوگ اعصابی تناؤکی وجہ سے چڑچڑاپن اور ذہنی کوفت کا شکار نہ ہو جائیں۔ یہ پہلا مو قع ہے کہ ہوائی اڈے، بندرگاہیں بند ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام فضائی آپریشن ممنوع ہے۔
فضائی آپریشن بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ آسمان صاف و شفاف ہو چکا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک دم شفاف ہو چکی ہے۔ ہمارے ملک کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو معذرت خواہانہ انداز میں ہم نے پہلی مرتبہ لوگوں سے معافیاں مانگتے دیکھا ہے۔ گھروں سے باہر نہ نکلنا اور اپنے آپ کو آئسولیشن میں رکھنااور اگر کسی بہت ضروری کام سے باہر نکلنا بھی ہو تو لوگوں سے تین فٹ کا فاصلہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کورونا وائرس انسانوں کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں، توبہ و استغفار کیا جائے۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ کورونا وائرس اپنے بندوں پر عذاب الہی ہے۔ ہم صرف باتوں میں اپنے وقت کا ضیاع کرنے میں شب و روز مصروف ہیں اور نہ ہی معاشروں میں مثبت تبدیلی آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وہی حال وہی کھال کے مصداق ہم اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ یہ لاک ڈاؤن کی میعاد طویل تر ہوتی گئی تو ملکی معیشت زیرو پر آ جائے گی۔ مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔ اس سے قبل ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے ترقی کی طرف کامیابی سے گامزن ہے۔ بھر پور وسائل کے باوجود ہم عالمی دنیا میں عالمی بھکاری مشہور ہیں۔ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر ہم نے کچھ نہیں کرنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنے کا سکھایا ہی نہیں گیا۔
اسی لیے بیرونی قوتیں ہم سے ایک عرصہ سے کھلواڑ کر رہی ہیں اور ہماری جوتی ہمارا سر کر رہی ہیں۔ ہمارا پیسہ ہم ہی پر میاؤں! واہ! ابھی ہم انتظار میں ہیں جن کو ہم کافر کہتے ہیں وہ ہی اس وائرس کا سد باب کریں گے۔ ہم اس آس پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ہم الحمدللہ امت مسلمہ ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم آخری نبی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کے پیروکار ہیں اور قابل افسوس ہے یہ امر کہ ہم اس عارضی لاک ڈاؤن سے تنگ آ گئے ہیں۔ وہ وقت یاد کیجئے جب میرے آقا نے اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب کی اس تنگ اور دشوار گزار گھاٹی میں سخت ترین تین سال معاشی و معاشرتی با ئیکاٹ کے ساتھ گزارے۔ ان میں شیر خوار بچوں کے علاوہ معصوم بچے، عورتیں اور عمر رسیدہ بزرگ سماجی ترک تعلق کرتے ہوئے بھوک، پیاس، افلاس اور گرمی کی شدت سے روتے تو کفار مکہ خوشی سے قہقہے لگاتے۔ صحرا کی گرمی بھی ان کے جوش ایمانی کو ماند نہ کر سکی۔
ایک ہم ہیں۔ راشن کا ذخیرہ بھی ہے بجلی بھی، اے سی، ٹی وی اور سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ کی عیاشی بھی موجود ہے۔ گھروں میں انواع اقسام کے کھانے اور پکوان میسر ہیں۔ رشتہ داروں اور دوست احباب آپس میں ملیں یا نہ ملیں کم از کم ان سے فون پر تو ہیلو ہائے جاری ہے۔ یہ لاک ڈاؤن ہماری بھلائی کے لیے ہے۔ شعب ابی طالب ہمارے نبی کا امتحان تھا۔ یہاں صرف غیر ضروری نکلنا منع ہے شعیب ابی طالب تو مکمل محاصرہ تھا۔ اگر یہ عذاب ہے تب بھی ہمارے رب کا شکر ہے کہ اس نے بھوکا پیاسا نہیں مارا صرف جھنجوڑا ہے۔ اشارہ دیا ہے۔ آئیں استغفار کریں۔ توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہے۔ یہ تاریخ اور سیرت النبی ﷺ کے سچے واقعات ہم مسلمانوں کی عملی زندگی کے لیے ہی مشعل راہ ہیں۔ اللہ پاک ہمیں سیرت النبیﷺ پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)