Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Aakhir Kyon

    Aakhir Kyon

    "آخر کیوں " رؤف کلاسرا کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ اپنے ایک کالم میں وہ لکھتے ہیں "میں اسلام آباد کے خوبصورت ایف نائن پارک میں بڑے عرصے بعد، جاتی سردیوں کی روشن دھوپ میں خاصی دیر سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ انسان کتنی تیزی سے بدلتے ہیں اور جب بدلنے پر آتے ہیں تو کیسے کیسے جواز ڈھونڈتے ہیں۔"وہ لکھتے ہیں " اگست 2007 کی بات ہے۔

    لندن سیاسی سرگرمیوں کا بہت بڑا مرکز بن چکا تھا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنے اپنے مستقبل کے امیدواروں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے تھے۔ ایجوائے روڈ پر ہر دوسرا چہرہ ان پاکستانی لیڈروں کا نظر آتا۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ ایک دوسرے کے گن گاتے نظر آتے۔

    ہم صحافیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان دونوں کے بارے میں کہانیاں سنائی جاتیں۔ اوپر اوپر سے جنرل مشرف کو گالیاں دی جاتیں تو اندر اندر رحمن ملک اور طارق عزیز اپنے لیڈروں کے مستقبل کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ڈیلیں کرنے میں مصروف تھے۔

    دوسری طرف نواز شریف اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھ جیسے صحافی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایمان کی پوری صداقت کے ساتھ یہ قسمیں کھاتے کہ کچھ بھی ہو جائے، وہ کبھی بھی ان لوگوں کو گلے نہیں لگائیں گے جنھوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔" ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ یوسف رضا گیلانی جیل میں سات دن گزارنے کے بعد پہلی دفعہ لندن آئے ہوئے تھے۔ ہم دونوں ایجوائے روڈ پر واک کرتے جا رہے تھے۔ ایک عربی دکان دیکھ کر میرا جی کھجوریں کھانے کو چاہا اور ہم دونوں اندر چلے گئے۔

    اچانک کسی نے گیلانی صاحب کو پیچھے سے دبوچ لیا۔ وہ حیران ہو کر پیچھے مڑے تو شہباز شریف کھڑے مسکرا رہے تھے، یہ دونوں کی آٹھ سالوں میں پہلی ملاقات ہو رہی تھی۔ بڑی دیر وہاں گپ شپ ہوتی رہی۔ وہ دونوں حیران ہوتے رہے کہ زندگی بھی کیا چیز ہے۔

    دونوں نے آٹھ سال بعد ملنا بھی تھا تو وہ بھی لندن کی ایک اجنبی سڑک پر۔ پچھلے ہفتے یوسف رضاگیلانی اور شہباز شریف کی پرائم منسٹر ہاؤس میں نا اہلی کے فیصلے سے پہلے ملاقات ہو رہی تھی تو میں یہ سوچ کر مسکراتا رہا کہ تقدیر بھی کیا چیز ہوتی ہے کہ صرف ڈیڑھ سال قبل وہ دونوں ایک سڑک پر اتفاقاً مل گئے تھے اور ان دونوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن ان میں سے ایک وزیر اعظم ہوگا اور دوسرا وزیر اعلیٰ بنے گا۔"مجھے نواز شریف کے لندن آفس میں بے نظیر بھٹو کی ایک تاریخی پریس کانفرنس یاد آ رہی ہے۔

    جہاں وہ ہم صحافیوں کو بتا رہی تھیں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اب ان کی پارٹی ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گی۔ جب میں نے ان سے یہ سوال پوچھا کہ پھر آپ لوگ جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کیوں کر رہے ہیں؟ تو وہ تھوڑے ناراض لہجے میں بولیں کہ سیاست میں مذاکرات کے دروازے تو کسی پر بھی بند نہیں کیے جاسکتے۔

    جب یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو پیپلز پارٹی کے چند بڑے لیڈر جو آج کل شریف برادران کی نااہلی کو پوری قوت کے ساتھ سچا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میرے پاس آئے اور بڑی دیر تک مجھے عقلی دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ مجھے اس طرح کے سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں جن سے دونوں لیڈروں کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ان دنوں اگر کوئی صحافی کوئی چبھتا ہوا سوال پوچھ بھی لیتا تو اس پر ایک مشترکہ الزام یہی لگتا کہ وہ ایجنسیوں کا بندہ ہے جس کا کام دونوں لیڈروں میں اختلاف پیدا کرکے جنرل مشرف اور (ق) لیگ کو فائدہ پہنچانا ہے۔

    ماضی کی غلطیوں پر دونوں لیڈر اتنا پچھتاتے تھے کہ یقین ہو چلا تھا کہ اگر ان دونوں پارٹیوں کو اقتدار ملا تو یہ عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک طرف جہاں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف جدوجہد کی بات ہوتی تو وہیں اندر اندر پیپلز پارٹی ان سے رابطے میں تھی۔ اسی طرح نواز شریف بھی بعض عرب ممالک کے لیڈروں کی مدد سے جنرل مشرف اور (ق) لیگ کے لیڈروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ دونوں لیڈروں کو علم تھا کہ وہ ایک دوسرے سے چھپ کر وہ سب کام کر رہے ہیں جن کی وہ پریس کانفرنسوں میں کھلے عام مذمت کرتے ہیں۔

    ہمارے اوپر دھاک بٹھانے اور یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ لیڈر اپنے ملک اور عوام سے کتنے مخلص ہیں، ہمیں یہ بھی یاد دلایا جاتا کہ کیسے ماضی کے تمام خوف ناک اختلافات بھول کر آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو، نواز شریف سے ملنے جدہ پہنچ گئے تھے۔

    پیپلز پارٹی کے ان جذبات کے جواب میں مسلم لیگ کے لیڈر یہ جتاتے کہ ہم یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت اور عوام کی بہتری کے نام پر نواز شریف اور شہباز شریف اس رحمن ملک کے گھر بے نظیر بھٹو سے ملنے چلے گئے تھے جس نے کبھی ان کے ابا جی کو لاہور میں ان کے دفتر سے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔

    یہ دو واقعات ایسے تھے جنھیں بار بار ہم صحافیوں کے آگے دہرایا جاتا اور ہم خاموشی سے شرمندہ ہوجاتے کہ ہم نے اتنے نیک اور اچھے لوگوں کی نیت پر شک کیا تھا۔" جو کالم اس کتاب میں شامل ہیں وہ 2007 سے 2009 کے وسط تک لکھے گئے ہیں اور اس دور کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کی روداد بیان کرتے ہیں۔ ایک کالم میں لکھتے ہیں " شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ پاکستان پر برج اسد (LEO) کے زیر اثر پیدا ہونے والے لوگوں نے حکومت کی ہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ برج اسد کا نشان شیر ہے لہٰذا اس ستارے کے زیر اثر پیدا ہونیوالے میں پیدائشی لیڈر کی خوبیاں ہوتی ہیں۔

    21 جولائی اور22 اگست کے درمیان پیدا ہونے والے لوگ (LEO) ہوتے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق، محمد خان جونیجو، مصطفی جتوئی، جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری سارے (LEO) ہیں۔ پاکستان کی یہ حالت دیکھ کر میرا جی چاہا کہ پتا کروں انسانی تاریخ میں کچھ اور بھی (LEOs) نے اپنے ملک اور قوم کے لیے کچھ کیا یا نہیں یا یہ اعزاز صرف ہمارے ملک کے حصے میں آیا ہے۔

    جہاں برج اسد کے لوگوں نے تیس سال سے زیادہ ملک پر حکومت کی لیکن ایک کے بعد ایک منظر سے غائب ہوتے گئے اور ملک کے حالات خراب سے خراب تر ہوگئے۔ تاریخ کے صفحات پلٹتے پلٹتے اچانک میری نظر اس (LEO) پر پڑی جو آج جنوبی امریکا کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔"

    مصنف لکھتے ہیں "ایک وہ (LEO) تھا جس نے جنوبی امریکا کی چھ ریاستوں کو آزادی دلائی، ایک ہمارے (LEOs) ہیں جنھوں نے قوم کو مزید غربت اور غلامی عطا کی۔ کتنے بدقسمت ہیں ہمارے لوگ جن کے حصے میں بولی وار جیسا ایک بھی (LEO) نہیں آیا جس پر ہم فخر کرسکتے۔"