حکیم محمد سعید بچوں کو ملک اور قوم کے مستقبل کی ضمانت سمجھتے تھے۔ وہ ان کی صحت، ان کی تربیت، ان کی تعلیم کو ملک کے دفاع کے بعد قومی ترجیحات میں سرفہرست رکھتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اس پر زور دیتے رہے۔ محض زبان سے کہتے نہ رہے، انھوں نے بچوں کی صحت، تعلیم اور ان کی تربیت کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کوششیں کیں، عملی قدم اٹھائے۔ انھوں نے تربیت نونہال کے لیے جو اقدام کیے ان میں پہلا بچوں کے ایک رسالے کا جاری کرنا تھا۔
"ہمدرد نونہال" کے ذریعے انھوں نے یہ کام شروع کیا، پھر "بزم ہمدرد" کے عنوان سے بچوں کا ایک فورم بنا کر اس کام کو آگے بڑھایا اور پھر ہمدرد پبلک اسکول قائم کرکے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا۔ کتابیں چونکہ بچوں کی تربیت اور تعلیم کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہیں، اس لیے بچوں کو اچھی کتابیں مہیا کرنے کی غرض سے ہمدرد میں نونہال ادب کا ایک شعبہ بھی قائم کر دیا۔
حکیم صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر بچوں کی تربیت کا ایک واضح پروگرام آزادی کے پہلے دوسرے سال میں بن جاتا اور تعلیم کا ایسا نصاب جو قومی امنگوں اور حال اور مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق ہوتا اور ملک کے اسکولوں میں رائج کر دیا جاتا تو آج ہم جن تباہ حالات سے گزر رہے ہیں ان کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ایک نسل کیا دو نسلیں ایسی تیار ہوتیں جو تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتیں اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل ہوتیں۔ یہ کام ارباب اقتدار کا تھا۔ ان کا تھا جن کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھی، جو قومی وسائل کی تقسیم پر قادر تھے، با اختیار تھے، ان کو مواقع بھی حاصل تھے۔ قومیتوں کا کوئی جھگڑا نہ تھا، فرقہ پرستی کا زہر ابھی پھیلا نہ تھا، موقع پرست سیاست کا بول بالا نہیں ہوا تھا، لوٹ مارکا بازارگرم نہیں ہوا تھا۔ ابھی لوگوں میں تحریک پاکستان کی گرمی اور دین کی حرارت اورکچھ کرگزرنے کا جذبہ باقی تھا۔
حکیم محمد سعید ایک ممتاز طبیب، صاحب فکر و نظر اور قابل احترام شخصیت تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ ایک سچے محب وطن اور قوم کے ہمدرد تھے۔ وہ نئی نسل کے ذہنوں کی تعمیر اور ان کی کردار سازی سے ملک میں ایک انقلاب فکر کے خواہاں تھے۔ ہمدرد فاؤنڈیشن میں جو انھوں نے نونہال ادب کا شعبہ قائم کیا تھا تو اس کا مقصد نئی نسل کے ذہنوں کی تعمیر اورکردار سازی تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ بچوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہو، وہ اچھے اخلاق سیکھیں، اپنے دین سے واقف ہوں، اپنے اسلاف کے کارناموں سے آگاہ ہوں، اپنی تاریخ کو جانیں، شخصیات کو پہچانیں، وطن سے محبت اور خلق خدا کی خدمت کی اہمیت کو سمجھیں، صاحب کردار بنیں اور اچھائی اور برائی کا شعور ان میں پیدا ہو۔
وہ ایک نوٹ میں لکھتے ہیں " ہم نے نونہال ادب کا شعبہ ان جذبات کے ساتھ قائم کیا ہے کہ ہم اس کے ذریعے نہ صرف نونہالان وطن کے لیے اچھا سبق آموز، حیات بخش، بصیرت افروز، تاریخی، علمی، ادبی و ثقافتی لٹریچر پروڈیوس کریں بلکہ اس میدان میں ایک مثالی کردار ادا کرکے تاریخ کو ایک حقیقت تازہ بھی دیں اور بچوں کے ادب میں ہمدرد کا نام احترام ومحبت کے ساتھ لیا جائے۔"
نونہال ادب کی کتابیں شایع ہوئیں تو انھیں پسند کیا گیا اور پرانے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں نے بھی نونہال ادب کے لیے لکھنے کی خواہش ظاہر کی خود حکیم محمد سعید نے بچوں کے لیے کئی بہت اچھی کتابیں لکھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نونہال ادب کی کاوشوں میں ان کا بڑا حصہ ہے خاص طور پر بچوں کے لیے سفرنامے حکیم صاحب سے پہلے کسی نے نہیں لکھے۔ اردو ادب میں یہ اضافہ انھوں نے کیا اور ایک نہیں چوالیس سفرنامے بچوں اور نوجوانوں کے لیے لکھ ڈالے۔ بچوں کے لیے ان کا پہلا سفر نامہ "یہ ترکی ہے" شایع ہوا تو بہت پسند کیا گیا۔
اس میں بچوں کی دلچسپی کا بہت سامان تھا۔ پھر جب وہ جولائی 1990 میں بغداد گئے تو اپنا سفرنامہ بچوں ہی کے لیے لکھا اور پھر اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بچوں کے لیے ہی لکھتے رہے۔ ان کا آخری سفر نامہ "استنبول کا آخری سفر" ان کی شہادت سے صرف ڈیڑھ ماہ پہلے لکھا گیا تھا یہ ان کی شہادت کے بعد شایع ہوا۔ عجیب اتفاق ہے کہ بچوں کے لیے ان کا پہلا سفرنامہ ترکی کے بارے میں تھا اور آخری بھی ترکی کے ایک سفر کی کہانی ہے۔
حکیم صاحب کے سفر ناموں میں ان کے روزوشب کا حساب ہے۔ ان کی خوشیوں اور ان کے غموں کا بیان ہے۔ اپنی ملت، اپنے وطن، اپنے نونہالوں اور نوجوانوں کے لیے ان کی فکروں کا اظہار ہے۔ انھوں نے اس صنف ادب کو نونہالوں کی تربیت و تعلیم کے لیے اختیار کیا تھا۔ وہ اپنے ایک سفرنامے "درۂ خیبر" میں نونہالوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں۔"میرے پیارے نونہالو! تم میری ایک بات یاد رکھنا۔ میں نے ساری عمر عالم اور معلم کا احترام کیا ہے۔ ان کی دل سے عزت کی ہے، ان کے سامنے ادب سے بیٹھا ہوں۔ ان کے سامنے آہستہ بولا ہوں۔ اس کا تم بھی خیال رکھنا۔ تم میرے ہو، میں تمہارا ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے تم کم ازکم میرے جیسے ضرور بن جاؤ۔ عالم کے ساتھ وقت گزارو۔ ضرور کوئی کام کی بات تمہارے ہاتھ لگ جائے گی۔"
پھر علم کے ساتھ عمل کی اہمیت جتاتے ہوئے حکیم صاحب اپنے سفرنامہ "سعید سیاح اسکندریہ" میں لکھتے ہیں "نونہالو! حرکت میں برکت ہے۔ اس دنیا میں جو لوگ حرکت میں رہتے ہیں، مصروف رہتے ہیں، خدمت کرتے رہتے ہیں جو جدوجہد کرتے ہیں ان کے مقدر کا ستارہ ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ زندگی نام ہے عمل کا۔ علم اور عمل سے پر زندگی زندہ دلی کہلاتی ہے اور زندہ دل انسان اپنے ماحول کو زندہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی کا درس دیتے ہیں۔"
حکیم صاحب ایک انتہائی اچھے سیاح تھے۔ وہ جب کسی سفر پر نکلتے تھے تو ان کا مقصد ہرگز سیر و تفریح نہیں ہوتا تھا۔ دولت مندوں کی طرح وہ ملکوں ملکوں جاکر عیش و آرام نہیں کرتے تھے۔ وہ سفر میں بھی کام کرتے رہتے تھے۔ کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے ایک سفیر کی طرح اپنے ملک کا نام روشن کرتے تھے۔ انھوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں سائنس اور طب پر ایک سو سے زیادہ مقالات پیش کیے۔ دنیا میں طب اسلامی کا نام روشن کیا۔ یہ ان کا تاریخ ساز کام ہے۔ وہ جہاں جاتے تھے اس کا سفرنامے میں بھرپور تعارف بھی کراتے تھے۔
حکیم محمد سعید نے اپنے سفر ناموں کو کس طرح نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا اس کا اندازہ ان کے سفرناموں کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے جیسا کہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے "حکیم صاحب کے مخاطب بچے ہیں۔ اس لیے جہاں بھی انھیں موقع ملتا ہے وہ بچوں کی کردار سازی کا فرض ادا کرتے جاتے ہیں اور یہ فرض وہ اتنے سلیقے سے ادا کرتے ہیں کہ بچوں کے باطن میں خیر اور نیکی کا جذبہ یوں نفوذ کر جاتا ہے جیسے شبنم کی نمی پھولوں کی پتیوں میں نفوذ کرتی ہے۔"
اپنے سفر نامے "سعید سیاح کویت میں " وہ نونہالوں کو یہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کس طرح کام کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " نونہالو! ہمیشہ یاد رکھنا دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں۔ ناممکن بھی نہیں ہے۔ بس ہمت چاہیے، غور و فکر چاہیے اور پھر عمل کی قوت۔ جب انسان یہ سب چیزیں جمع کرلیتا ہے تو پھر اللہ کی پوری تائید حاصل ہو جاتی ہے۔"
حکیم محمد سعید اپنا ہر سفر نامہ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے مکین کو ضرور بھیجتے اور لکھتے کہ ہے تو یہ نونہالوں کے لیے لیکن اس میں آپ کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ وہ بری افواج کے سربراہ کو بھی اپنے سفرنامے بھیجتے اور یہ بات کسی قدر یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ انھیں پڑھتے بھی تھے۔
حکیم صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ملک کے بڑے ادیب بھی بچوں کے لیے لکھیں۔ انھوں نے ان کو خط لکھے اور دعوت دی کہ وہ نونہال کے فروغ میں تعاون کریں۔ وہ قاہرہ گئے تو وہاں سے عربی میں بچوں کے لیے شایع ہونے والی کتابیں لے آئے۔ ایران گئے تو وہاں بچوں کا لٹریچر دیکھا اور وہاں سے کتابیں منگوائیں، چین اور روس میں شایع ہونے والی خوبصورت مصورکتابیں بھی منگوائیں اور ان کا اردو میں ترجمہ کرکے شایع کی گئیں۔ انگریزی سے بھی ترجمے کیے گئے۔ بک کلب بھی بنا دیا کہ بچوں کو کتابیں آسانی سے پڑھنے کو ملیں۔
سچ ہے حکیم محمد سعید کو بچوں سے عشق تھا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ بچوں کو کس طرح عظیم بنادیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے لیے بہترین کتابیں شایع ہوں۔ وہ انھیں پڑھیں اور ان سے سیکھیں۔