اب سے کوئی اکیس سال پہلے مفتی محمد تقی عثمانی نے اندلس کا سفر کیا۔ اس سفر میں انھوں نے جو دیکھا اور دیکھ کر ان کے دل پر جو گزری اس کا حال انھوں نے اپنے سفر نامے "دنیا میرے آگے" میں بیان کیا ہے۔ ان کے دو سفر نامے اور شایع ہوچکے ہیں ایک "جہاں دیدہ" اور دوسرا "سفر در سفر"۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں برگِ آوارہ کی طرح سفر میں رہا ہوں اور اس دوران نہ جانے کتنے ملکوں اور شہروں کی خاک چھانی ہے اور ان سفروں سے قابل ذکر معلومات حاصل ہوئی ہیں یا ان کی بدولت تاریخ اسلام کے گم شدہ اوراق پلٹنے کا موقع ملا ہے، ان کی روداد سفر ناموں کی شکل میں لکھتا رہا ہوں۔"اندلس میں چند روز" ایسے ہی ایک سفر کی روداد ہے۔
مفتی صاحب مالی معاملات کی شرعی حیثیت کے موضوع پر ایک مذاکرے میں شرکت کے لیے مراکش کے دارالحکومت رباط گئے۔ مراکش اسپین سے قریب ترین اسلامی ملک ہے انھوں نے اس قرب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سرزمین کو دیکھنے کی جو کبھی اندلس تھا اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس سفر کے لیے انھیں ایک رفیق بھی مل گیا۔ یہ ان کے دوست فیصل اسلامی بینک بحرین کے سعید احمد تھے۔ یہ دنوں رباط سے چلے ہوائی جہاز سے مالقہ پہنچے۔ اسپین کی یہ بندرگاہ اندلس میں مسلمانوں کے دور حکومت میں بھی ایک اہم بندرگاہ تھی۔ ہوائی اڈے سے کار کرایہ پر لی۔ سعید احمد صاحب نے ڈرائیور کی سیٹ سنبھالی، غرناطہ تک پہنچنے کے لیے راستوں کا ایک نقشہ بھی مل گیا اور اس نقشے کی مدد سے سفر کا آغاز ہوگیا۔
تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں "یہ اندلس کی وہی سرزمین تھی جس پر مسلمانوں کے عروج و زوال کی آٹھ سو سالہ تاریخ کے واقعات بچپن سے میری دلی وابستگی کا مرکز بنے رہے ہیں اور تصور کی نگاہوں نے اس کے نہ جانے کتنے خاکے بنائے ہیں۔ عالم تخیل کی وہ حسین وادیاں آج میری نگاہوں کے سامنے تھیں اور ان میں آٹھ سو سال کے واقعات کی ایک فلم چلتی محسوس ہو رہی تھی۔ جس قوم نے تلواروں کے سائے میں یہاں تکبیر کے زمزمے بلند کیے تھے، وہ آٹھ صدیوں تک اپنے جاہ و جلال کا لوہا منوانے کے بعد طاؤس و رباب کی تانوں میں مدہوش ہوکر پھر ایسی سوئی کہ آج اس کا کوئی نشان بھی سلامت نہیں رہا۔"
مالقہ سے غرناطہ کی طرف سفر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹی بڑی بستیاں گزرتی ہیں یہ پہاڑی علاقہ تھا، ہر پہاڑ پر ایک نمایاں کلیسا نظر آیا جس کا مینار اندلس کی مسجدوں کے مینار سے مشابہ تھا۔ مفتی صاحب کو خیال آیا کہ یہ کلیساجن پر ایک ہی طرح کا مینار ہے کبھی مسجد رہے ہوں گے اور ان سے پانچ وقت کی اذانوں کی آواز گونجتی ہوگی، لیکن آج یہ مینار زبانِ حال سے یہ کہتے نظر آتے ہیں :
زمزوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
مفتی صاحب غرناطہ پہنچے، ہوٹل میں آگئے۔ لکھتے ہیں "ہم نے اپنے کمرے کی بالکونی سے باہر کی طرف جھانکا۔ شہر کا ایک بڑا حصہ نظروں کے سامنے تھا۔ غرناطہ سیرانویدا پہاڑ کے دامن میں آباد ہے۔ یہاں کتنی تہذیبیں طرف کے شادیانے بجاتی ہوئی آئیں اور بالآخر نوحہ و ماتم کی فضا میں دفن ہوگئیں۔"غرناطہ پہنچنے کے دوسرے دن صبح کو مفتی تقی عثمانی اپنے دوست سعید احمد کے ساتھ قصرالحمرا دیکھنے گئے۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں "الحمرا کا پورا علاقہ جس میں قلعہ، شاہی محل اور باغات سب داخل ہیں ایک مضبوط فصیل کے اندر ہے۔
یہاں قدم قدم پر شکستہ عمارتیں عہد ماضی کی داستانیں سنا رہی تھیں۔ دروازے کے قریب ترین تاریخی جگہ، برج الحراسہ ہے۔ جو الحمرا کا سب سے بلند برج ہے۔ اسی برج پر کبھی مسلمانوں کا پرچم لہرایا کرتا تھا لیکن غرناطہ کے آخری حکمران ابو عبداللہ نے جب فرڈیننڈ کو الحمرا کی چابی کا "تحفہ" چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش کردیا تو فرڈیننڈنے پہلا فاتحانہ کام یہ کیا کہ برج سے مسلمانوں کا پرچم اتروا کر پادریوں کے ہاتھ یہاں لکڑی کی ایک صلیب نصب کردی۔ وہ دن اور آج کا دن یہ صلیب یہاں نصب چلی آ رہی ہے اور الحمرا میں داخل ہونے والے کسی مسلمان سیاح کا دل چھلنی کرنے کے لیے کافی ہے۔"قصر الحمرا کے بعد مفتی صاحب اور ان کے ساتھی سعید صاحب کی منزل قرطبہ تھا جو یہاں سے کوئی دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
قرطبہ اندلس کے قدیم شہروں میں سے ہے۔ جب پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو یہاں قوطیعوں کی حکومت تھی۔ مسلمانوں کے دور میں قرطبہ دنیا کے متمدن ترین شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ علم و فضل کا مرکز تھا۔ اندلس سے علم و دانش کے ہر میدان میں جو قدآور شخصیتیں پیدا ہوئیں، ان میں بیشتر قرطبہ ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں "جس قرطبہ کے حالات کتابوں میں پڑھے تھے اور جس کی حسین فضا میں لکھی ہوئی کتابیں آج بھی مجھ جیسے طالب علم کے لیے رہنمائی کا عظیم ذخیرہ ہیں، وہی قرطبہ اب نگاہوں کے سامنے تھا لیکن دنیا بدلی ہوئی تھی۔
نہ وہ دین و ایمان، نہ وہ علم و فضل، نہ وہ مسجدیں اور درس گاہیں، نہ کتب خانے اور کتابیں۔ نہ وہ شرافت و متانت، نہ وہ عالی دماغ انسان جنھوں نے اس خطے کو دنیا بھر میں سرفرازی عطا کی تھی۔ اب تو میرے سامنے بیسویں صدی کے یورپ کا ایک شہر تھا جس کی وسیع سڑکوں پر مادہ پرستی کی دوڑ ہو رہی تھی، جس کی دو رویہ عمارتوں میں کفر و شرک کا بسیرا تھا اور جس کے بسنے والے انسان شرافت و متانت کو بزور شمشیر زیر کرکے سات سو برس کا سفر طے کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ چکے تھے جہاں نفس پرستی شرافت کا منہ چڑا کر اسے عہد رفتہ کی جہالت سے تعبیر کرتی ہے۔"
مفتی تقی عثمانی صاحب نے فیصلہ کیا تھا کہ عصر کی نماز مسجد قرطبہ میں ادا کریں گے۔ چنانچہ وہ اور سعید احمد صاحب اپنے ہوٹل سے جامع قرطبہ پہنچے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں "نہ جانے کس نے ہم سے یہ بے بنیاد بات کہی تھی کہ مسجد قرطبہ کو نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع بالکل غلط تھی اور یہاں باقاعدہ نماز پڑھنے کی اب بھی اجازت نہیں ہے۔
اکا دکا سیاح آکر نماز پڑھ لیں تو بات دوسری ہے۔ چنانچہ میرے دوست اور رفیق، سعید احمد نے یہاں اذان کہی۔ حئی علی الصلوٰۃ کی اس دل آویز پکار کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ ہم دونوں نے محراب کے قریب کھڑے ہوکر نماز عصر ادا کی۔ اس مسجد کے فرش پر سجدہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے آٹھ صدیوں کا فاصلہ یک لخت سمٹ گیا ہے اور ہم وقت کی اس تاریک سرنگ سے نکل کر اس کھلی فضا میں پہنچ گئے ہیں جہاں چاروں طرف توحید کا نور بکھرا ہوا ہے اور یہ فضائے بسیط خدائے وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا کے زمزموں سے لبریز ہے۔ سبحان ربی الاعلیٰ کی معنویت یہاں زیادہ واضح ہوئی۔
میرے پروردگار کی شانِ کبریائی عروج و زوال کی اس دھوپ چھاؤں سے کہیں بلند و بالا ہے۔ وہ اس وقت بھی "اعلیٰ" تھا جب یہاں سجدے کرنے والی جبینوں سے یہ وسیع و عریض مسجد تنگ پڑ گئی تھی اور اس وقت بھی "اعلیٰ" ہے جب حئی علی الاصلوٰۃ کی آواز پر کوئی ایک قدم بھی محراب کی جانب نہیں اٹھا۔"تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں "میں نے اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے تاریخی مقامات دیکھے ہیں۔ بہت سے عبرت کدوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن دل و دماغ پر جو حسرت ناک تاثر جامع قرطبہ کو دیکھ کر ہوا وہ کسی اور تاریخی مقام کو دیکھ کر نہیں ہوا اور اب سمجھ میں آیا کہ اقبال مرحوم نے مسجد قرطبہ میں جو طویل نظم کہی ہے وہ تاثر کے کس عالم میں کہی ہے:
سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات