Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Gulshan Urdu

Gulshan Urdu

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سندھی زبان میں علمی اور تحقیقی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انھیں اس زبان کا سب سے بڑا محقق اور دانشور قرار دیا جاتا ہے۔ اردو میں بھی ان کی علمی، ادبی اور تصنیفی خدمات کچھ کم وقیع نہیں۔ وہ عربی زبان کے عالم تھے، فارسی اور انگریزی میں بھی ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوچکے ہیں۔

محمد راشد شیخ نے " گلشن اردو " کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کے اردو میں مقالات اور تحریروں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں "ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے ساری زندگی علم اور تحقیق سے گہرا رشتہ قائم رکھا اور ہر عہد میں مفید علمی اور تحقیقی خدمات انجام دیں۔ ان کی علمی خدمات وسیع الاطراف اور وسیع الموضوعات ہیں۔ انھوں نے اپنے عہد شباب ہی میں بڑے بڑے علمی منصوبوں کا خاکہ بنایا اور ان پر پوری مستعدی سے کام کرتے ہوئے تقریباً تمام منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔"

" گلشن اردو" میں ڈاکٹر بلوچ کے مختلف مقالے، شخصی خاکے، ہمارے نظام تعلیم پر ان کا ایک انٹرویو اور ایک سیر حاصل مذاکرہ جس کا موضوع پاکستانی ثقافت کے مسائل ہے اور " ایام علی گڑھ" کے عنوان سے مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں طالب علمی کے زمانے کی یادیں ہیں۔

"نظریاتی مملکت میں ادیب کا کردار" پر اپنے مقالے میں ڈاکٹر بلوچ فرماتے ہیں کہ جب شروع ہی سے ہمارا مقصد یہ رہا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہوگی تو لامحالہ اس کی تشکیل و تعمیر میں ادیبوں کے کردار کا تعین کرنا ہوگا یعنی یہ کہ وہ اپنی نظریاتی مملکت کی حفاظت و مدافعت اور مخالف نظریوں کی مزاحمت کس طرح کرتے ہیں۔ یہ ان کی وطن دوستی، نیکی، نمک خواری کا تقاضا اور اخلاقی ذمے داری ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے بارے میں اپنے مقالے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔" شاہ صاحب اپنے کلام کو محض شعرکے بجائے ایک خالص الخاص پیغام کا حامل سمجھتے تھے، ایک ایسا پیغام جو حق و صداقت کا آئینہ دار ہو۔ چنانچہ اس کلام سے مانوس ہونے والے کو انھوں نے یہ تلقین فرمائی کہ جن کو تو! ہدایت سمجھتا ہے حقیقت میں وہ آیات ہیں جو دل کو محبوب حقیقی کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ توحید اور رسالت شاہ صاحب کے پیغام کے دو ستون ہیں۔"

سندھ میں اردو شاعری کے دو مجموعوں، دیوان صابر اور دیوان فضل محمد ماتم پر ڈاکٹر صاحب نے جو مقالے لکھے ہیں وہ بھی " گلشن اردو" میں شامل ہیں۔ یہ دونوں مقالے تاریخی اور تحقیقی اہمیت کے ہیں۔

سندھی زبان کے بارے میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں " زمانہ قدیم سے صوبہ سندھ کی زبان سندھی ہے۔ یہ صوبے سے باہر بلوچستان کے اضلاع لسبیلہ، کچھی اور سبی اور پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے اکثر باشندوں کی زبان بھی ہے۔ بھارت کے علاقے کچھ میں بھی اکثریت کی زبان سندھی ہے جو مقامی کچھی لب و لہجے میں بولی بن جاتی ہے۔ اس زبان نے سندھو ندی (دریائے سندھ) کی جنوبی وادی سندھ میں جنم لیا اور سندھی کہلائی۔ سندھ برصغیرکے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت ایک بیرونی علاقہ ہے اور اسی مناسبت سے برصغیر کی دوسری اندرونی یا بیرونی داخلی زبانوں کے مقابلے میں سندھی کا شمار "بیرونی زبانوں " میں ہوتا ہے۔ یہ تقسیم لسانی اصولوں پر مبنی نہیں بلکہ محض جغرافیائی ہے۔

پاکستان کے نظام تعلیم پرگفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے ایک انٹرویو میں فرمایا "ہمارے ملک میں صرف ایسے ادارے نہیں ہونے چاہئیں جو ڈاکٹر پیدا کریں، انجینئر پیدا کریں، بینکر اور قانون داں پیدا کریں بلکہ چھوٹے چھوٹے پیشوں کی ترقی اور تربیت کے ادارے بھی ہونے چاہئیں کیونکہ ایک ترکھان اور راج کی بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ وہ بھی قومی زندگی میں اپنا حصہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔"

1975 میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک مذاکرہ "پاکستانی ثقافت کے مسائل" پر ہوا تھا۔ اس میں کراچی کے گیارہ صاحب رائے ادیبوں اور نقادوں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ سے ان کے اس موضوع پر کلیدی خطاب کے بعد مزید وضاحت کے لیے سوال کریں۔"گلشن اردو" میں اس مذاکرہ کا پورا احوال ہے۔ اس پوری مشق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ پاکستانی ثقافت کا اصل اور واضح تصورکیا ہے۔ یہ بڑا فکر انگیز مذاکرہ تھا اور اس میں ڈاکٹر بلوچ نے عالمانہ انداز میں پاکستانی ثقافت کے مسائل پر روشنی ڈالی تھی۔ سوال کرنے والے دانشوروں میں پیر حسام الدین راشدی، ڈاکٹر عالیہ امام، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، رشید آخوند، سلیم احمد اور حسین امام صاحب شامل تھے۔

"گلشن اردو" ڈاکٹر بلوچ کے لکھے جو خاکے ہیں ان میں ایک خاکہ ممتاز حسن صاحب کا بھی ہے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں "وہ ایک سچے محب وطن تھے۔ ان کو اپنے وطن کی ہر چیز عزیز تھی چاہے وہ ماضی کے آثار ہوں یا حالیہ صنعتی ادارے یا آیندہ کے منصوبے اور ترقی کی تجاویز۔ وہ قیام پاکستان کے وقت دہلی سے منتقل ہوکر آئے تھے۔ ابتدائی دور کے اعلیٰ سرکاری افسروں کے زمرہ میں وہ ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اس پس منظر سے باخبر تھے کہ جس میں یہ نئی مملکت وجود میں آئی تھی لہٰذا انھوں نے پاکستان کی خدمت، عظمت اور استحکام کے مقاصد کو ذہنی اور عملی طور پر اپنا لیا تھا اور سچائی کے جذبے، انتظامی تجربے اور اپنی ذاتی شرافت اور صلاحیت سے وطن کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کرلیا تھا۔"

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے قاضی احمد میاں اختر، اپنے استاد بھائی ڈاکٹر مختار الدین احمد، ڈاکٹر غلام مصطفی خان اور مولانا آزاد سبحانی کے خاکے بھی لکھے ہیں۔

ایام علی گڑھ کی یادیں اور اپنے عربی کے استاد پروفیسر عبدالعزیز میمن کا ذکر ان کی خوبصورت تحریریں ہیں۔ 1941 میں نبی بخش بلوچ نے بہاالدین کالج، جوناگڑھ سے بی اے آنرز کیا اور ایم اے عربی کرنے کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا رخ کیا۔ ایک گھنٹے میں داخلے کے لوازمات پورے ہوگئے، آفتاب ہوسٹل میں کمرہ بھی مل گیا۔ لکھتے ہیں "مجھے اپنے گزشتہ کالجوں اور مسلم یونیورسٹی میں بڑا فرق نظر آیا۔ وہاں پر نصابی تعلیم ہی پر توجہ مرکوز تھی، یہاں پر پڑھنے والوں کے لیے غیر نصابی تربیت کے کئی مواقع موجود تھے۔ ہر ہوسٹل کے مختصر جلسوں کے علاوہ یونیورسٹی کی سطح پر بڑے اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ مباحثوں، مشاعروں اور کھیلوں کا ایک سلسلہ چلتا تھا۔"

مسلم یونیورسٹی آکر نبی بخش بلوچ کو کلاس روم کے تقدس کا احساس ہوا اور پہلی بار معلوم ہوا کہ استاد کیسے ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں "شعبہ عربی کے استاد پروفیسر عبدالعزیز میمن، بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے، شعبہ فارسی کے پروفیسر ہادی حسن ایران کے مختلف فارسی لہجوں میں گفتگو کرسکتے تھے، جناب ظفر الحسن فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر تھے، شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد حبیب کا نام نامی ہندوستان بھر میں مشہور تھا۔"’شعبہ اردو کے استاد شگفتہ طبع رشید احمد صدیقی صاحب تھے۔"

پروفیسر عبدالعزیز میمن کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ وہ علمی دنیا کی ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ عربی لغت، شعر و ادب میں یکتائے روزگار تھے دوسرے متعلقہ علوم و معارف میں بھی ان کی معلومات نہایت وسیع اور عالمانہ تھیں۔ حافظہ کچھ ایسا پایا تھا کہ اسی برس کے لگ بھگ عمر میں بھی وہ ایک چلتی پھرتی انسائیکلوپیڈیا تھے۔ آخری عمر کراچی میں گوشہ تنہائی میں بسر کی۔

ڈاکٹر بلوچ لکھتے ہیں "1941ء میں جب میں ایم اے عربی کے طالب علم کی حیثیت سے علی گڑھ پہنچا تو استاد میمن پروفیسر صدر شعبہ عربی تھے۔