Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jo Hum Pe Guzri

Jo Hum Pe Guzri

"جو ہم پہ گزری" سید سبط یحییٰ نقوی کی سفارتی زندگی کی سرگزشت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ بطور سفارت کار اپنی ذمے داریوں کے دوران جو مشاہدات ان کے سامنے آئے وہ انھوں نے اسی طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نہ کوئی غلط بیانی ہے، نہ مبالغہ اور نہ کوئی تبصرہ اور تجزیہ۔

نقوی صاحب لکھتے ہیں "یہ محض اتفاق ہے کہ میری زیادہ تر تقرریاں ایسے ممالک میں ہوئیں جہاں آمرانہ حکومتیں تھیں۔ پاکستان میں میری نوکری کے دوران میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں تھے۔ بینظیر اور نواز شریف کے دور میں بس نام کی جمہوریت تھی۔ جنرل مشرف بھی ڈکٹیٹر تھے۔ یوں مجھے ڈکٹیٹروں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔"

اکتوبر 1976 میں سبط یحییٰ نقوی کی پوسٹنگ بطور سیکنڈ سیکریٹری لیبیا میں ہو گئی۔ ان کی شادی کو ابھی چند مہینے ہوئے۔ لکھتے ہیں "طرابلس آمد کے بعد اپنی ذمے داریاں سنبھالتے ہی سب سے پہلا مرحلہ مجھے اپنے لیے رہائش تلاش کرنے کا تھا۔ گھروں کے کرائے بہت زیادہ تھے۔ بہرحال مشکل سے ایک چھوٹا سا فلیٹ کرایہ پر ملا۔ سفارت خانے نے مختصر سا فرنیچر دیا تھا۔

فریج، گیس کا چولہا اور دیگر بجلی کی ضروری چیزیں مجھے خود خریدنی پڑیں۔ ہمارا فارن الاؤنس اتنا کم تھا کہ چیزیں قسطوں پر خریدیں اور ایک سال تک قسطیں ادا کرتا رہا۔ لیبیا میں مہنگائی اتنی تھی کہ بچت تو درکنار مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔ اکثر بازار سے ضروری اشیا غائب ہو جاتی تھیں۔ شروع میں میرے پاس کار نہیں تھی اور طرابلس میں بسیں بہت کم چلتی تھیں اس لیے میں پیدل ہی دفتر جاتا تھا۔ پھر کچھ پیسے والد صاحب سے منگوا کر اور دوستوں سے قرض لیے ڈاٹسن Y۔ 120 کار خریدی۔"

تین سال طرابلس میں رہ کر سبط نقوی رومانیہ پہنچ گئے جہاں انھیں سفارت خانے میں سیکنڈ سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن سفیر کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستانی سفارت خانے کا چارج ان کے پاس تھا۔ یہاں چاؤشسکو کی مطلق العنانی تھی۔ نقوی نے اس کے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پورا ملک ایک بڑا قید خانہ بن گیا تھا، لوگ بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔

رومانیہ ایک خوبصورت ملک تھا۔ لوگ خوبصورت، ملنسار اور ہنس مکھ تھے۔ طنز و مزاح کا ذوق رکھتے تھے، اپنی زندگی کی مشکلات ہنس بول کر کاٹ لیتے تھے۔ نقوی لکھتے ہیں "رومانیہ میں زندگی بڑی مشکل تھی۔ کھانے پینے اور ضروریات کی چیزیں بھی مشکل سے ملتی تھیں۔ سردیوں میں چار مہینے برف باری کے دوران کوئی تازہ سبزی نہیں ملتی تھی۔ سب سے زیادہ مشکل ہمارے سفارت خانے کی تھی۔ ہمیں دالیں، چاول، مرچ مسالے، ادرک لہسن روم میں اپنے سفارت خانے سے کوریئر کے ذریعے منگوانے پڑتے تھے۔

سبط یحییٰ نقوی کی پوسٹنگ کے دوران صدر ضیا الحق نے رومانیہ کا دورہ کیا۔ ان کا وفد ایک سو دس افراد پر مشتمل تھا۔ آٹھ وزیر ان کے ساتھ۔ نقوی لکھتے ہیں۔"صدر کا طیارہ شام کے وقت جب ہوائی اڈے پر اترا تو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے تھا۔ چاروں طرف برف کے ڈھیر تھے۔ صدر کے ساتھ پریس فوٹوگرافر، ٹی وی کے نمایندے بھی تھے۔

ان کے پاس اوورکوٹ نہیں تھے۔ ہوائی اڈے پر ان کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے اور ہونٹ نیلے پڑ گئے۔ میں صدارتی مہمان خانے میں اپنی ڈیوٹی پر تھا۔ رات کے آٹھ بجے صدر ضیا الحق نے ہدایت کی کہ یہاں سردی بہت ہے۔ پریس کے لوگوں کے لیے اوورکوٹ اور گرم کپڑوں کا انتظام کیا جائے۔ میرے لیے یہ کام بہت مشکل تھا، کیونکہ دکانیں چھ بجے بند ہو جاتی تھیں۔ بہرحال میں نے وہاں کے پروٹوکول کے لوگوں سے رابطہ کیا، بڑی مشکل سے ایک اسٹور کھلوایا اور پریس کے لوگوں کے لیے پندرہ اوورکوٹ اور گرم پاجامے خرید کر رات کو ان کے کمروں میں پہنچا دیے۔" صدر ضیا کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا اور رومانیہ اور پاکستان میں اقتصادی تعاون کی راہیں کھلیں۔

رومانیہ کے بعد نقوی نے یورپ کی سیر میں چھٹیاں گزاریں، پھر اسلام واپس آئے۔ 1988ء میں ان کی پوسٹنگ پرتگال ہو گئی۔

پرتگال میں سابق وزیر اعظم فیروز خان نون کی بیگم وقار النسا پاکستان کی سفیر تھیں۔ انھوں نے سب کام سبط نقوی پر چھوڑ دیا تھا۔ 1992ء میں نقوی کا تبادلہ انڈونیشیا کا ہو گیا اور وہ جکارتہ پہنچ گئے۔ یہ جنرل سہارتو کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ انھوں نے جکارتہ میں غیر جانبدار ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس بلائی ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ فیملی بھی ساتھ تھی۔ وہ ہوٹل ہلٹن میں ٹھیرے مگر چونکہ وہاں کا کھانا پسند نہیں کرتے تھے اس لیے نقوی صاحب نے اپنی بیگم آسیہ سے کہا کہ ہم اپنے گھر سے کھانا پکا کر بھیج دیں گے۔ نواز شریف چار دن جکارتہ میں ٹھیرے اور ہر روز دو بڑے کنستروں کے برابر ناشتہ دان میں ان کے لیے کھانا جاتا تھا۔ اسی طرح ایک رات عشائیہ کے بعد میاں صاحب کو بوسنیا کے مسئلے پر کمیٹی کی میٹنگ کے دوران مونگ کے پاپڑ یاد آ گئے اور نقوی کو ان کا انتظام کرنا پڑا۔ ایسے ہی کچھ اور واقعات کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔

نقوی لکھتے ہیں کہ پاکستان کے شام سے تعلقات بہت اچھے تھے۔ صدر مشرف کے دورہ دمشق سے ان تعلقات میں اور گرم جوشی پیدا ہوئی۔ صدر بشار الاسد نے سبط یحییٰ نقوی کو شام کا اعلیٰ ترین "درجہ ممتاز" سے نوازا۔ پانچ سال میں کامیاب سفارت کاری کے بعد نقوی کو اسلام آباد واپس بلا لیا گیا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے ان کی پوسٹنگ ہو گئی۔ یونیورسٹی میں نیشنل اسٹریٹجی اور وار کورس کے علاوہ اور شعبوں میں بھی تحقیق کا کام ہوتا ہے۔ نقوی فیکلٹی کے سب سے سینئر ممبر تھے اس لیے ان کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ کورس کے سلسلے میں انھوں نے کینیا، جنوبی افریقہ، نیپال اور چین کا دورہ کیا۔

2006ء میں سبط نقوی سفیر بنا کر نیدر لینڈز بھیج دیے گئے۔ چار سال وہاں گزار کر وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ اپنی سفارتی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے نقوی لکھتے ہیں کہ سفارتکار کی زندگی ایک جہد مسلسل ہے۔ اجنبی دیسوں میں جن کی زبان، تہذیب و تمدن، سوچ، طور طریق اور دین کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے، وہاں جا کر پاکستان کا پرچم لہرائے رکھنا اور ملک کا نام روشن رکھنا سفارت کار کی ایک بڑی ذمے داری ہوتی ہے۔ سفارتکاروں کی بیگمات کی ذمے داریاں، بیرون خانہ اور اندرون خانہ بھی اسی طرح ہیں۔ نقوی لکھتے ہیں کہ مجھے اپنی بیگم آسیہ کی مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ہر پوسٹنگ میں بے حد مدد ملی۔

سید سبط یحییٰ نقوی کی یہ داستان حیات "جو ہم پہ گزری" راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کی ہے اور نقوی صاحب کے ان الفاظ پر تمام ہوتی ہے "اب میں کینیڈا میں ایک پرسکون اور خوشگوار ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہوں، اپنی بیگم کے ساتھ جن کا فیض ہم سفری میری زندگی کا چمکتا ہوا چراغ ہے اور اپنے بچوں کے ساتھ جو میرا سرمایہ حیات ہیں۔"