رسالہ "مخ المعانی" ممتاز فارسی شاعر اور نثرنگار، امیر حسن علاسجزی کی تصنیف ہے جس میں انھوں نے عشق کے حروف ع۔ ش۔ ق کی الگ الگ شرح اور مجموعی طور پر عشق کی صفات اور خصوصیات بیان کی ہیں۔ پروفیسر لطیف اللہ نے اردو میں اس کا "کتابِ عشق" کے عنوان سے خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ صوفیہ کے طریق اور مشرب کی بنیاد عشق ہے اس لیے صوفی ادب میں عشق کے موضوع اور شرح کو مستقل حیثیت حاصل ہے۔"مخ المعانی" نہ صرف عشق کی شرح ہے بلکہ عاشق کے دل کی شوریدگی اور اضطراب کا ترجمان بھی ہے۔
امیر حسن علاسجزی حضرت سلطان المشائخؒ کے مرید خاص تھے اور جب اپنا یہ رسالہ لکھ کر انھوں نے حضرت کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے نہ صرف اس پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ اپنے سر مبارک کی کلاہ ان کے سر پر رکھی۔
امیر حسن علا سجزی لکھتے ہیں۔ عشق ایسا لفظ ہے جس نے تین حروف عین۔ شین اور قاف سے ترکیب پائی ہے اور اس کا ہر حرف عشق کے احوال اور محبت کی حکایت بیان کرتا ہے۔"عین" کے ایک معنی ہیں "چشم"۔ اہل خرد جانتے ہیں کہ چشم تخمِ عشق ہے۔
جو کچھ نظر آتا ہے آنکھ سے نظر آتا ہے، چاہے نعمت ہو یا بلا۔ عشق اور آنکھ ایک دوسرے سے مناسبت بھی رکھتے ہیں جس طرح آنکھ کی تین خصوصیات ہیں، اسی طرح عشق کی بھی تین صفتیں ہیں۔ وہ تین چیزیں جو آنکھ کے لیے ضروری ہیں کون سی ہیں؟ سیاہی، سفیدی اور روشنی۔ عشق کی تین صفتیں کیا ہیں؟ فقر، غم اور حضوری۔ جس طرح آنکھ کی سیاہی، سفیدی اور روشنی کے بغیر مفید نہیں اسی طرح عشق بھی فقر کی سیاہی کے بغیر دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے غم کی سفیدی کے بغیر اور حضوری کے بغیر رایت ربی فی قلیمی کی تکمیل نہیں ہوتی۔"عین" کے ایک معنی "چشمہ" ہیں جس کا منبع کوہِ بلا ہے اور جو غم زدہ دلوں کی کھیتی کو سیراب کرتا ہے۔
ہر سبزہ جو اس چشمے کی بدولت سینے کے صحن سے پیدا ہوتا ہے، اسے ایسی تلوار خیال کرو جس کی کاٹ پہاڑ کی چوٹی سے زیادہ قوی ہے۔ حوصلہ چاہیے کہ اس پہاڑ میں فرہاد کی سختیاں جھیلے۔ جو لوگ چشمۂ عشق کے پیاسے ہیں وہ دریائے کرامت میں غرق رہتے ہیں۔ یہ لوگ جتنا کچھ اس چشمے سے پیتے ہیں، سلامتی کے کوچے میں رہنے والے ہوشیار اس سے محروم رہتے ہیں۔ سبحان اللہ! عشق کی باتوں کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ اگرچہ ارباب فضل اور اہل علم نے صحرائے بیان میں معانی کی نہر جاری کی ہے لیکن چشمۂ عشق کا پانی کچھ اور ہے۔
"عین" کے ایک معانی "آفتاب" ہیں۔ عشق ایسا آفتاب ہے جسے زوال نہیں ہے۔ یہ آفتاب ہر اس شے کو جو روزنِ دل سے دل میں جاگزیں ہوتی ہے، اس کے ایک ایک ذرے کو دل کی ہم نشینی کے لیے باقی نہیں چھوڑتا۔ یہ ایسا آفتاب ہے جو افقِ درد سے طلوع ہوتا ہے اور درد مندوں کے دلوں میں غروب ہوتا ہے۔
ہر سوختہ جاں اس کی تاب نہیں لاتا، صفت درد مند چاہیے جو اس کی صحبت میں رہ سکے۔ آفتابِ عشق کو ایسا نورِکامل ودیعت ہوا ہے جو ناقصوں کو کامل بناتا ہے۔ اے آفتاب! تجھ میں عشق کی تمام صفتوں اور محبت کی نشانیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ تجھ میں جو سوز ہے وہ تیشِ عشق کی علامت ہے۔ عشق کے بہت درجات اور زینے ہیں۔ جو راہ محبوب تک پہنچاتی ہے، بلند درجہ اسی کا ہے۔ کمالِ محبت یہ ہے کہ دوست سے دوست کے سوا کچھ نہ چاہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو انصاف کے پلڑے میں ایسی محبت کا کوئی وزن نہیں۔
عشق کا دوسرا حرف "شین" ہے۔ شین دانت (دندانے) رکھتا ہے۔ جس شخص کو بے وفائی سے منسوب کرتے ہیں، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے پیٹ میں دانت ہیں۔ عشق بھی ایسا بے وفا ہے جو کسی دل کو نہیں بخشتا اورکسی جان پر رحم نہیں کھاتا۔ جس دل میں دانت گاڑ دیتا ہے وہ بے چارہ دل کیا کرے سوائے اس کے کہ دانتوں کے زخم سے جان دے دے۔
عشق کے "شین" میں بہت سے اسرار مضمر ہیں، اگرچہ شین ظاہری اعتبار سے سین کی شکل رکھتا ہے لیکن ازروئے معنی حسن کا شاہدِ کامل ہے جس نے عشق کے دل میں جگہ حاصل کی ہے۔ شین اور سین لوحِ ازل میں ہم صحبت تھے، قلم کی جنبش نے ان کے درمیان تفرقہ ڈال دیا جس کا جگہ جگہ اثر ہوا۔"شین" عشق کے واسطے سے زلیخا کی جان سے لپٹ گیا۔"سین" یوسف کی تدبیر پر پڑا اور یعقوبؑ کے دل میں پیوست ہو گیا، یا اسفا علیٰ یوسف (ہائے یوسفؑ، افسوس)۔ زخم وہی زخم ہے جو عشق کی تلوار سے ہوتا ہے، درد وہی درد ہے جو عاشق کے دل میں ہوتا ہے۔
"قاف" عشق کا تیسرا حرف ہے۔ اللہ تعالیٰ جو تمام سچوں میں سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتا ہے "ق والقرآن المجید"۔ آئمہ تفسیر نے فرمایا ہے کہ آیت میں "قاف" جو قرآن المجید کے ساتھ ہے اس سے مراد قافِ قدرت کی قسم ہے یا کوہِ قاف کی قسم۔ یہ ایک پہاڑ ہے جو دنیا کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی قسم ہے کوہِ قاف کی کہ بقائے عالم اور نفعِ دنیا اس سے وابستہ ہے اور قسم ہے قرآن کی جس سے تمہارے دین کی بقا وابستہ ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ اہلِ عشق کے طریق کی بقا دوست کی عنایت پر منحصر ہے۔ جس طرح کوہِ قاف تمام عالم کا احاطہ کیے ہوئے ہے قافِ عشق بھی کوہ قاف کی مانند تمام عالم کو اپنے حکم کے دائرے میں محصورکیے ہوئے ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں چار نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ وہ چار نعمتیں کون سی ہیں؟ پہلی نعمت یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے جب میری ہستی کو خلعتِ فاخرہ کا لباس پہنایا تو انسان کی صورت میں پیدا کیا، کیونکہ مخلوقات تو بہت ہیں۔ الحمد للہ میری پیدائش کے موتی کو آدمیت کی لڑی میں پرو دیا۔ دوسری نعمت یہ ہے کہ مجھے آدمی پیدا کیا تو مرد پیدا کیا، کیونکہ آدمیوں کی دو قسم ہیں، بعض مردانہ نسبت کے حامل ہیں اور بعض نسوانی نسبت سے متعلق ہیں۔
تیسری نعمت یہ ہے کہ جب مرد پیدا کیا تو مسلمان پیدا کیا۔ چوتھی نعمت یہ ہے کہ جب آدمی پیدا کیا اور مسلمان پیدا کیا تو الحمدللہ محمد ﷺ کی امت میں پیدا کیا۔ اس کے ساتھ مخدوم جہانیاں سے ارادت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جو بادشاہِ حقیقی ہے۔ لاریب وہی میرا اور آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے۔