ہوش بلگرامی کی خودنوشت آپ بیتی "مشاہدات" 1955 میں حیدر آباد دکن میں شایع ہوئی تھی اور اب راشد اشرف نے اپنے زندہ کتابوں کے سلسلے میں ازسر نو مرتب کرکے شایع کی ہے۔
اس کتاب کے تعارف میں وہ لکھتے ہیں کہ ناظرالحسن بلگرامی نظام دکن کے دیے ہوئے خطاب کے بعد نواب ہوشیار جنگ کہلائے۔ دربار سے وابستہ رہے، آسائشیں دیکھیں، پریشانیاں بھی اٹھائیں۔ ان کی یہ خود نوشت اس اتار چڑھاؤکی داستان ہے، دکن کی تاریخ بھی ہے۔ اس داستان کا ایک بڑا حصہ سقوط حیدرآباد کے آخری ایام اور اس کے سیاسی ابتلا کے بیان پر مشتمل ہے۔
ہوش بلگرامی اپنی خودنوشت کے بارے میں فرماتے ہیں " میری زندگی کے اس ادبی تحفے میں ایسے حقائق پوشیدہ ہیں اور"مشاہدات" کے ایسے ناقابل انکار مناظر پھیلے ہوئے ہیں جن کے مطالعے سے ممکن ہے ناظرین بہت جلد ان تجربات پر عبور حاصل کرلیں جن کے لیے میں نے مصائب برداشت کیے ہیں، روحانی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔ میں نے چونکہ کسی قدر صاف بیانی سے کام لیا ہے، اس لیے یہ خیال نہ کیا جائے کہ صرف انسانی عیبوں پر نظر رکھی ہے۔ نہیں، بلکہ جہاں صفات ملی ہیں ان کے بیان کرنے میں بھی قلم کو روکا نہیں ہے۔ میں نے دوسروں کے عیب گنانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی غلطیاں اور اپنے عیب بھی بیان کرنے میں پس و پیش نہیں کیا ہے۔"
ہوش بلگرامی کی زندگی کیسے گزری، اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔"میں نے اپنی خوش تدبیریوں سے اپنے متوسط الحال خاندان کے نام کو اقطاعِ ہند میں چمکایا، اپنی وطنی ذہانت سے اہل قلم میں اپنا شمار کرایا، کم و بیش دوہزار صفحے مختلف عنوانوں پر سیاہ کیے۔ سب سے ہٹ کر اپنا ایک طرز بیان اختیارکیا۔ بڑی بڑی ہستیوں سے بے تکلف تعلقات پیدا کیے۔ فرمانروایان ملک اور امرائے عظام سے بے محابانہ باتیں کیں۔ جن کو ایک طرف اپنی بذلہ سنجیوں سے حلقہ بگوش بنایا تو دوسری طرف ان کو ملکی اور سیاسی معاملات میں ایسے ایسے مشورے بھی دیے کہ جن پر وہ اگر چل سکتے تو آج ان سے زمانہ اس طرح منہ نہ موڑتا۔"
ہوش بلگرامی کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ تھا اور دوسرا پہلو یہ تھا کہ انھوں نے انسانوں کی مختلف النوع فطرتوں کو پہچاننے میں غلطیوں پر غلطیاں کیں۔ لکھتے ہیں " میں اپنی فطرت کے لحاظ سے دوسروں کو اپنے جیسا ہی سمجھتا تھا۔ ہر ایک کو صداقت کا پیکر جانتا تھا۔ اس طرح ابتلائے اعتماد ہوکر ایک عرصہ دراز تک ان کے مکر وفریب کے جال میں پھنسا رہا اور اس وقت چونکا جب غلطیوں کی شام ہو چکی تھی۔"
حیدرآباد دکن میں ہوش بلگرامی کا پہلی مرتبہ قیام کا زمانہ آٹھ سال تھا۔ انھوں نے وہاں ایک ماہنامہ "ذخیرہ" نکالا۔ پھر اس میں ایک غلط مضمون چھپ گیا تو نظام کے حکم سے حیدرآباد سے نکال دیے گئے۔
ہوش بلگرامی حیدرآباد سے نکل کر بھوپال گئے، جے پورگئے اور پھر رام پور پہنچ گئے۔ یہاں وہ دس سال رہے اور یہاں جو کچھ دیکھا وہ ان کی خود نوشت کا دلچسپ حصہ ہے۔ یہ ہزہائنس سید حامد علی خاں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ یہ وہاں پہنچتے ہی نواب صاحب کی بارگاہ میں باریاب ہوئے۔ ہوش بلگرامی نے ان کی شخصیت نگاری کا حق ادا کیا ہے۔ نواب حامد علی خاں شیعہ تھے، محرم کے پہلے عشرے میں سیاہ پوش رہتے تھے وہ مذہبی معلومات کا سمندر تھے، انگریزی بے تکلف بولتے تھے۔
فارسی شعرا کے قصائد زبانی یاد تھے، روانی سے پڑھتے چلے جاتے تھے۔ وہ موسیقی کے ماہر مان لیے گئے تھے، بتاشوں پر ناچتے تھے، رقص کرتے تھے تو بتاشے ٹوٹتے نہیں تھے، ہندوستانی ساز ہر قسم کا مشاقی سے بجاتے تھے، امریکا اور یورپ کی سیاحت کرچکے تھے۔ ہوش لکھتے ہیں "نفاست پسندی میں ان کا جواب نہیں تھا، اخلاقی جرأت اس قدر تھی کہ میں نے اس قدرکہیں نہیں دیکھی۔ دن میں سوتے تھے، رات بھر جاگتے تھے۔ غرض یہ کہ نواب حامد علی خاں کی ہر ادا انوکھی اور ان کی ہر بات نرالی تھی۔" ہوش پر توجہات بیکراں تھیں۔
پھر یہ ہوا کہ ایک دن تار آیا کہ اعلیٰ حضرت نظام نے انھیں حیدرآباد آنے کی اجازت دے دی ہے اور ہوش بلگرامی نواب صاحب سے اجازت لے کر رام پور سے حیدرآباد روانہ ہوگئے۔ اس وقت ان کی بیوی بھی وہیں تھیں۔
ہوش بلگرامی دس سال کے بعد حیدرآباد پہنچے۔ دوسرے ہی دن نظام دکن میر عثمان علی خاں کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باریاب ہوئے، نوکری بھی مل گئی۔ زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ہوش لکھتے ہیں "ابتدائی زمانے میں ایک عرصے تک میں روزانہ بارگاہ خسروی میں حاضر ہوتا رہا پھر جمعہ کا دن مقرر ہوا۔ تھوڑے عرصے تک نہ روزانہ حاضری رہی نہ جمعہ کو۔ آخر وہ زمانہ آیا جب اعلیٰ حضرت نے یکایک یاد فرمایا۔ اس کے بعد تقریباً دس سال تک برابر دو دوگھنٹے، تین تین گھنٹے بلکہ چار چار اور پانچ پانچ گھنٹے تک حضوری میں حاضر رہتا تھا۔ دن میں دو دو، تین تین مرتبہ بھی جانا پڑتا تھا۔ صبح نکلتا تھا اور سر شام کہیں گھرکی صورت دیکھتا تھا۔
بعض اوقات راتوں کو بھی بارہ بارہ ایک ایک بجے تک مختلف مسائل پر گفتگو رہتی۔ شہ نشیں پر ایک کرسی میرے لیے رکھوا دی جاتی، اس پر بیٹھ کر نامعلوم کیسے کیسے مسائل چھیڑے جاتے تھے اور شہزادی پتھروں کے فرش پر کمرے کی آڑ میں بیٹھی ہوئی سب کچھ سنتی رہتی تھیں۔"ہوش بلگرامی دربار حیدرآباد کی کیفیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں۔"گو حیدرآباد ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی لیکن رامپورکے جیسے ٹھاٹ یہاں نہ تھے۔ ہاں چوبداروں کی بھیڑ ایسی ہی تھی، جو ڈیوڑھی پر حاضر ہوتا تھا، اس کی موٹر ہو یا گھوڑا گاڑی، گھیر لیتے۔
انعاموں کی بھیک مانگتے، جھوٹی دعائیں دیتے دیتے زبانیں خشک کرتے اور اس وقت تک نہ ٹلتے جب تک سکۂ عثمانیہ کو ہاتھوں میں نہ دیکھ لیتے۔ یہ دریوزہ گروں سے زیادہ ڈھیٹ ہوتے اور حضور نظام کی ہر بات سننے کے لیے کان لگائے رکھتے۔ بات کا بتنگڑ بنانے میں ان کو کمال تھا۔ یہ ریزیڈنسی سے مستقل تنخواہیں پاتے تھے اور امرائے دولت سے ہر ماہ کافی رقم وصول کرلیتے تھے۔"
ہوش لکھتے ہیں "بیس سال تک جو بلاناغہ دربارعثمانی میں حاضر رہا ہو اس نے وہاں دن کے اجالوں اور رات کی تاریکیوں میں کیا کچھ نہ دیکھا ہوگا۔ اس نے نظام دکن کی خوش مزاجیاں بھی دیکھی ہوں گی اور بر افروختگیاں بھی، حکمرانی کے طمطراق بھی دیکھے ہوں گے اور انسانیت کی وہ سادگی بھی جو عصر حاضر کی ملوکیت میں کہیں نظر نہیں آسکتی۔ شاہی رکھ رکھاؤ کے انداز، بے تکلف صحبتوں کی مساوات مذہبی شغف کا عروج اور سیاست کا زوال، سب کچھ ان آنکھوں نے دیکھا ہوگا۔
کلام الملوک سن کر سخن وروں کی یاد آئی ہوگی۔ مشرقی درباروں کی سازشیں بھی دیکھی ہوں گی اور سب سے بڑھ کر پوزیشن کے فریب میں خصوصیت کے ساتھ عمومیت کو بھی مبتلا دیکھا ہوگا۔ ان واقعات کو اگر پھیلایا جاسکتا تو اس کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت پڑجاتی اور اس طرح چشم دید واقعات کی ایک معتبر تاریخ تو مرتب ہو جاتی مگر "مشاہدات" کے محدود صفحات اس کی تاب نہ لاسکتے تھے۔"