نعتیہ ادب کے کتابی سلسلے کے تازہ شمارے کے مرتب صبیح رحمانی اپنے ابتدائیہ میں فرماتے ہیں کہ اردو نعت اور اس کی تنقید کا معاصر منظرنامہ اس اعتبار سے اردو نعت کی انفرادیت کا مظہر ہے کہ اس کے ذریعے ہم قدری اور جمالیاتی سطح پر اپنے ادب کے جہانِ معنی کو روشن تر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے دور میں جب ادب بلکہ جملہ فکری اور سنجیدہ سرگرمیاں انحطاط کی صورت حال سے دو چار ہیں اور یہ ہمارا ہی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس امرکا اظہار ہو رہا ہے، ایسے میں نعتیہ ادب کا روشن سے روشن تر ہوتا ہوا تخلیقی و تنقیدی تناظر ہمارے فکری وجود کے زندہ ہونے کا نہایت وقیع اور معنی آفریں حوالہ ہے۔ ازروئے ایمان یہ حوالہ ہماری تقویت کا سب سے محکم سامان رکھتا ہے اور ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح عصر حاضر کے انسانیت کش ماحول میں بھی ایک بار پھر ہماری بقا اور استحکام کا اہتمام کرتے ہوئے مشیت ایزدی ہمیں چشمۂ حیات جاوداں کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ چشمہ اب سے پہلے بھی ابتلا اور آزمائش کی ساعتوں میں ہمیں آب بقا فراہم کرتا رہا ہے اور اب بھی یہی ہماری سیرابی اور بحالی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔"نعت رنگ" کے اس شمارے میں جو مقالات شامل ہیں ان میں ایک محسن کاکوروی کے قصیدہ لامیہ پر ڈاکٹر سراج احمد قادری کا مقالہ بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں " محسن کاکوروی کو اردو کی نعتیہ شاعری میں ایک ایسے ستون کا درجہ حاصل ہے جس پر تحقیق و تنقید کی بنیاد قائم ہے۔ ان سے قبل شعرائے کرام کی فکریہ حیثیت فن اس جانب مبذول ہی نہیں ہو سکی تھی۔ ان کا یہ شعر:
سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کے لیے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے
اردو نعت گو شعرا کے لیے بانگ جرس ثابت ہوا جس نے دفعتاً ان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ محسن کے اس شعر میں وہ کشش تھی کہ لوگ فوری طور پر نعت کے فن کی طرف متوجہ ہو کر تخلیقات نعت میں اس کی قدروں کو تلاش کرنے لگے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کہتے ہیں کہ محسن کی نعت میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔
یہ اس لیے کہ نعت گوئی اگرچہ ہمیشہ سے موجود تھی لیکن اسے فن کی حیثیت سے کسی اردو شاعر نے محسن سے پہلے اختیار نہیں کیا اور جن لوگوں نے عقیدت کی بنا پر صرف نعت گوئی کو اپنا شعار بنایا انھوں نے کوئی شاعرانہ کمال پیدا نہیں کیا۔ محسن کا کلام جذبات کی غیر فانی بنیادوں پر استوار ہے۔ خلوص اور محبت، شیفتگی اور عقیدت جو محسن کی زندگی کے عناصر تھے انھی سے ان کی شاعری نے ترکیب پائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب بھی اس میں صوری اور معنوی دلکشی پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر سراج احمد قادری لکھتے ہیں " محسن کاکوروی کی طبیعت میں جدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے اندر جو جوش، ولولہ، شوخی، جولانی اور نشاطیہ کیفیت تھی اس کو انھوں نے نعت گوئی میں برقرار رکھا۔ یہ ساری چیزیں ان کو اپنے موضوع کے خلاف کبھی محسوس نہیں ہوئیں بلکہ انھوں نے فن کا درجہ دے کر اس میں معنوی وحدت پیدا کی۔ یہ جدت ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے روایتی نعت گوئی سے گریز کرکے حقیقت محمدیؐ کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اسی انداز میں اس کو اپنی نعتوں میں بیان بھی کیا۔
محسن نے کسی ملامت یا ہدف تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ محسن کا نعتیہ کلام جہاں سرور انبیاؐ کے اوصاف حمیدہ اور ان کی حقیقت و ماہیت سے روشناس کرتا ہے وہیں اپنے آقا و مولیٰؐ سے ان کے بے کراں عشق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔"پروفیسر امجد حنیف راجہ اپنے مقالے " نعت شناسی اور اس کے معیارات " میں لکھتے ہیں " نعتیہ شاعری بے انتہا حزم و احترام کی متقاضی ہوتی ہے۔ زبان قلم سے ادا ہونیوالے کسی بھی نعتیہ شعر کو اچھا یا برا قرار نہیں دیا جاسکتا۔
شاعر دراصل تمام تر صداقتوں کے جذبات سے مزین ہو کر خامہ فرسائی کی جسارت کرتا ہے، اس لیے اس کی کاوش کی تحسین ہی ہو سکتی ہے۔ تاہم مضامین و خیالات کا اظہار اور فن کے تلازمات کو سامنے رکھ کر ہی تنقید ممکن ہے۔ گویا خیالات، زبان و بیان، مواد، اسلوب وغیرہ کے ارفع و اعلیٰ یا ادنیٰ ہونے پر بحث ہوتی ہے۔ نعت دراصل سیرت رسول کا ایک ایسا شعری بیان ہے جس میں فضائل کا حسن اور مسائل کا ذکر بھی ہے۔ اس میں شاعر لفظ لفظ مبالغے سے بچتا ہے۔ عقیدت گویا عقیدے کی انگلی تھام کر چلتی ہے۔ یوں یہ حسن بیان کی دل آویزی کے ساتھ صداقتوں کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔
نعت حضور خیر الانعامؐ کے جمال و کمال کا مورخانہ نہیں بلکہ شاعرانہ اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت گوئی بڑے نصیب کی بات ہے۔"پروفیسر امجد حنیف لکھتے ہیں کہ نعت کا قرینہ ایسا ہونا چاہیے کہ شاعر اپنی قلبی واردات بھی بیان کرے اور اپنے دل کا گداز بھی اشعار میں بھر دے۔ یہ اس صورت ہی ممکن ہے جب نعت گو کے پیش نظر ہر وقت حضورؐ کا اسوہ مبارک ہو۔ ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی نے اپنے مقالے میں اردو نعت کے نوآبادیاتی تناظر اور امیر مینائی کی نعت گوئی پر اظہار خیال کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں " انیسویں صدی کے نصف آخر میں نعت کی بہ طور صنف شعر بنیاد رکھی جانے لگی۔ اس اعتبار سے یہ عہد مطالعہ نعت کے سلسلے میں یوں زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ نعت کے صنفی تشخص کے ساتھ ساتھ تخلیقی سطح پر اس کے موضوعات، میلانات اور اسالیب کا تعین کیا جا رہا تھا۔ اس عہد میں نعت رقم کرنیوالوں نے اپنی اپنی اثر انگیزی کی بنیاد پر جو رخ اختیار کیا، بعدازاں اس کا چلن مقبول ہوا اور بعض ایسے اثرات بھی ثبت ہوئے جنھیں زائل کرنا سہل نہیں۔
نعت کی بہ طور صنف شعر بنیاد رکھنے والوں میں امیر مینائی ہمہ جہت اور ہمہ گیر اثرات کے باعث بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت کے صنفی تشخص کے استحکام کے سلسلے میں ان کی وقیع تخلیقی کاوشوں کا اہل نقد نے بجا طور پر اعتراف کیا ہے۔ انھوں نے نعت کے فن کو تشکیلی مراحل سے نکال کر تکمیلی منازل کی طرف گامزن کیا۔ نعت گوئی کو اصناف شعر میں آج جو اہمیت حاصل ہے وہ امیر مینائی ہی کے ذوق نعت کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر شمع افروز نے اپنے مقالے میں قیوم نظر کی نعت گوئی پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں " قیوم نظر کی نعت گوئی کا مطالعہ کریں تو موضوعات کی کئی جہتیں نظر آتی ہیں جس میں آپؐ کی ذات مبارکہ کی تعریف و توصیف کا بیان اور اس کے ساتھ ساتھ جڑے واقعات شامل ہیں۔ آپؐ سے والہانہ محبت کا اظہار اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار بھی شعرائے کرام آپؐ کی ذات مبارکہ سے کرنے لگے جو زمان و مکان کے ظلم و ستم، جبر و بربریت، آہ و بکا، گمراہی و بے راہ روی کی روداد سے تعلق رکھتے ہیں۔
قیوم نظر کی نعتیہ شاعری میں بیسویں صدی کے کرب و آگہی کا احساس موجود ہے جس کو قیوم نظر نے اپنے عہد میں دیکھا اور محسوس کیا تھا۔" ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے شاعر علی شاعرکے نعتیہ قصیدہ کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " یہ قصیدہ ایک سو دس اشعار پر مشتمل ہے۔ شاعر نے اس نعتیہ قصیدے کے لیے بحر رمل مسدس مخذوف مقصورکا انتخاب کیا ہے۔ یہ بحر اردو میں بالعموم مثنوی اور غزل کے لیے مستعمل رہی ہے۔ شاید ہی کوئی قصیدہ یا نعتیہ قصیدہ اس بحر میں تخلیق ہوا ہو۔ لطف کی بات ہے کہ جناب شاعر علی شاعر نے مسدس بحر میں بھی قصیدے کے مزاج کو قائم رکھا ہے۔