سفرنامہ نگار اپنا کام، عموماً جھوٹ یا کم از کم مبالغے سے چلاتے ہیں۔ یہ "واردات" غزہ کے سلسلے میں کرنا، اَور بھی آسان ہے۔ مگر یہاں حال یہ ہے کہ طبیعت مبالغے تک سے اِبا کرتی ہے۔ عنوان سے بھی یہ نہ لگے کہ لکھنے والا، منزل ِمقصود تک، جیمز بانڈ کے مانند، اِسے غچہ دے، اْسے چپت لگا، اَوگھٹ گھاٹیاں پھلانگتا، ماوراے ِعقل رکاوٹیں عبور کرتا، منزلوں پر منزلیں مارتا، آخر ِکار، جا پہنچتا ہے۔ یا ضمیر جعفری مرحوم کے فلمی ہیرو کی طرح:
اکیلے ہاتھ سے، دس بیس تلواریں چلاتا ہے
جہاں چڑھنا بھی مشکل ہو، وہاں سے کْود آتا ہے
کسی بھی ایڈوینچر کی اسرائیل میں، نہ گنجائش ہے اور نہ کوشش ہی کی گئی۔ بڑی خواہش تھی کہ غزہ میں داخل ہوں اور وہاں کے رہنے والوں کی بسر بْرد دیکھوں۔ لیکن اسرائیلیوں نے اسے، دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے۔ نتیجتاً:
محفل اْن کی، ساقی اْن کا
آنکھیں میری، باقی اْن کا
لیکن آگے بڑھنے سے پہلے، ذرا واپس چلیے۔ پچھلی نشست میں ذکر ہوا تھا "سی آف گیلیلی" کا۔ اس کا ترجمہ، رواروی میں، سمندر کر گیا۔ یہ بحر نہیں، بْحیرہ ہے، یعنی ایک بہت بڑی جھیل! نام ِنامی اس کا بْحیرہ طبریہ ہے۔ اس جھیل کا خشک ہو جانا، قْرب ِقیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ اسرائیل میں پانی کے ذخائر، یوں بھی کم ہیں۔ بْحیرہ مْردار، جو دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیل ہے اور اسرائیل ہی کے قبضے میں ہے، اس کی بھی سطح نیچے آ رہی ہے۔ بْحیرہ مردار اور اس سے متصل علاقہ، سطح ِسمندر سے اتنا نیچے ہے کہ دنیا کا کوئی دوسرا خْشک خطہ نہیں ہے۔ اس کے مشرق میں اْردن، اور مغرب میں فلسطین اور اسرائیل واقع ہیں۔ اسی رعایت سے یہ علاقہ، مغربی کنارہ کہلاتا ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں ع
زمین ِشْورہ، سنبل بر نیاردر
(شوردار زمین سنبل نہیں اگایا کرتی) اس کھارے پانی میں بھی، حیات آج تک ناپید ہے۔ ہاں! اسے نتھار کر اور نسوت بنا کر، اب استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ ع
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم
کہا تو ہمارے شاعر نے ہے، مگر مصداق اس کے، غیر ہیں! بْحیرہ مْردار کے برخلاف، طبریہ میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ تو اسی میٹھی جھیل کے کنارے، ہم کھانا کھانے بیٹھے تھے۔ کھانا پکانا، ایک ہْنر ہے، تو اسے کھانا اور کھلانا بھی، باقاعدہ فن ہیں۔ عرب، پکانے، کھانے اور کھلانے، تینوں میں جواب نہیں رکھتے! پاکستان میں اصل کھاجے سے پہلے، زیادہ سے زیادہ سلاد اور چٹنی یا رائتہ پیش کرنے کا رواج ہے۔ اس کے معاً بعد، کھانا پروس دیا جاتا ہے۔ عربوں کا معاملہ ع
خْم آئے گا، صراحی آئے گی، پھر جام آئے گا
سے بہت آگے کا ہے! بنیادی کورس سے پہلے، آپ کے سامنے، نصف درجن ڈشز سجا دی جاتی ہیں۔ ان میں سلاد، بینگن کا بھرتا اور حمس لازمی شامل ہوتے ہیں۔ حمس، سفید چنوں کا گھولوا ہے اور مغرب میں بھی بے حد مقبول ہے۔ کسی شے کے تھْڑنے کا بھی سوال ہی نہیں اور زیادہ بھوک نہ ہو تو آدمی، اس اولین کورس کی چکھوتیوں میں ہی نبھ جائے! لطف یہ کہ تقریباً ساری چیزیں یہاں، عرب مارکہ ملیں گی۔ یہ نہیں کہ چھاپ ان پر مغرب کی ہو یا انگریزی ناموں کی تعریب کر دی گئی ہو۔ ہم نے سیلمن (صحیح تلفظ سَے مَن) مچھلی کا آرڈر دیا تھا۔ اب جو لوازمات آنے شروع ہوئے، تو عربوں کے دسترخوان کی وسعت کا اندازہ ہو گیا! میں نہ پْرخور ہوں اور نہ ان میں سے، جنہیں سعدی، یوں مخاطب کر گئے ہیں عتو معتقد کہ زیستن، از بہر ِخوردن است!الیکن آج تو نیت سے بڑھ کر اور گنجائش سے زیادہ ہی کھا گیا۔ خیر اتنا بھی نہیں کہ بقول ِانور مسعود صاحب
پاٹن ہاکا پیٹ، ندیدی اَکھ مری نہ رجّے
(پیٹ تو سیر ہو کر پھٹنے کو آیا، آنکھ کی سیری البتہ نہیں ہوئی!) فلسطینیوں کے ناشتے بھی سادہ و "پْرکار" ہیں۔ جو دہی یہ جماتے ہیں، وہ نمکین ہوتا ہے۔ اس کی افادیت اور غذایت، حکماء جانتے ہوں گے، اتنی گواہی البتہ میں دیتا ہوں کہ یہ سلونا پن، دہی کی قدرتی مٹھاس میں گھْل کر، مزہ دوبالا کر دیتا ہے۔ ہمارے یہاں حْقے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ پر اب یہ مغرب میں بھی، عربوں کے ہاں سے پہنچ گیا ہے۔ ہمارے اکابرین میں، علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خاں بھی حقے کے بڑے رسیا تھے۔ مولانا تو دسیوں شعر اس کی شان میں کہہ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں :
حقے نے بنایا مجھے دو کَش میں محقق
اور فلسفہ چھانٹا کیے دوانی و طوسی
آئیے! اب چلتے ہیں آج کی آخری منزل کی طرف! غزہ کا محل ِوقوع، پہلے جان لینا ضروری ہے۔ اسی سے اندازہ، اس بات کا بھی ہو جائے گا کہ فلسطین کا قیام، کتنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ مغربی کنارہ، اسرائیل اور اْردن کے درمیان کا علاقہ ہے اور غزہ اسرائیل اور مصر کے بیچ کا۔ یعنی جس مْلک کی آس فلسطینیوں کو دلائی جاتی ہے، اس کے درمیان، سو کلومیٹر رقبہ اسرائیل کا حصہ ہے۔ ہم غزہ کی سرحد پر پہنچے ہیں تو دوپہر کا عمل تھا۔ پاکستان میں واقع سفارت خانے، اگر آپ نے دیکھ رکھے ہیں، تو جانیے کہ اسی طرح کی باڑھیں اور اونچی دیواریں یہاں بھی قائم ہیں۔ ویسا ہی دروازہ، جو پھِرکی کی طرح گھومتا ہے، یہاں بھی لگا ہوا نظر آیا۔ اس سے ایک وقت میں ایک ہی آدمی برآمد ہو سکتا ہے۔ جتنی پابندیاں اسرائیلیوں نے غزہ کے رہائشیوں پر عائد کی ہوئی ہیں، اس سے زیادہ دیواریں، "برادر" اسلامی ملک مصر نے اٹھا رکھی ہیں۔ ان دو رستوں کے سوا، کوئی تیسری راہ، نہ اس میں رسد رسانی کی ہے اور نہ اس جیل سے باہر آنے ہی کی ہے۔
اسرائیلیوں کی کم نظری کہیے یا کور نظری، لیکن ننھے سے اس مْلک کو پہلا کام، یہ کرنا چاہیے تھا کہ اپنا وجود، ہر ایک کے لیے قابل ِقبول بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ عرب طبعاً سیر چشم، فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ دوستی کے واسطے بڑھا ہوا ہاتھ، کبھی نہ جھٹکتے۔ مگر اسرائیلی، امریکا اور انگلینڈ کے برتے پر، سنڈیانے لگے۔ پانسا جب کبھی پلٹا، اور یقیناً پلٹے گا، تو چین یا روس یا کسی اَور طاقت کو، ضروری نہیں کہ اسرائیلیوں سے ویسی ہی دلچسپی ہو۔ فسلطینیوں کو کوئی امید یا توقع، برادر عرب ممالک سے نہیں رہی۔ اس کے باوجود، خوف ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ع
لَو لگی ہے شمع کی اللہ سے!