Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Khabrain/
    3. Dilli Fasadaat Aur Arundhati Roy

    Dilli Fasadaat Aur Arundhati Roy

    بھگویت گیتا کے مطابق دکھ سکھ میں سب انسان ایک ہیں۔ انسانوں کے ایک ہونے کا تصور سناتن دھرم کا بنیادی خیال ہے اور ادویت اور دویت کی کشمکش ہندو ازم کی جدلیات کا حصہ ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ صوفیوں کے ہاں وحدت الوجود کا تصور اپنیشدوں کے ادویتی فلسفے سے کشید ہوا ہے۔ مذہب سے ماورا تمام انسانوں کےلئے محبت سناتن دھرم کی اساس رہا ہے۔ جبکہ بی جے پی کے ہندوتوا میں Othering یا غیریت سے دشمنی، تناو اور عداوت کو دوام ہے۔ ہندوتوا کا مقصد ایسا "ہندوپن" پیدا کرنا ہے جو ہندوستان میں رہنے والے سب انسانوں کو ہندویت کا گیروا چولا پہنا دے۔ ایک ہندو سنت الٹی منطق دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہندو کا مطلب کالا چور ہے۔ یہ درست نہیں کیونکہ ہندو کے دو معنی ہیں ایک انڈین اور دوسرا کالا۔ چور کا اضافہ سنت کی اختراع ہے۔ با کمال شاعر، مستند سکالر اور بے مثال استاد ڈاکٹر اسلم انصاری نے علامہ اقبال ؒ کا مصرعہ سنایا۔ "ترک و تاجیک وعرب، ہندوی تو" یہاں ہندو غلام کے معنی دے رہا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں کالے اور ہندی کی حد تک بات درست ہے، باقی سب رعایتیں ہیں۔ حافظ شیرازی کے ہاں خالِ ہندوش، کالا تل ہے:

    اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را

    بخالِ ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را

    مہاتما گاندھی سناتن دھرم کے پیرو تھے اور ان کا قاتل ہندوتوا کا ماننے والا تھا۔ سناتن دھرم انسان سے بیر رکھنا نہیں سکھاتا کہ سب انسانوں کا جوہر ایک ہے۔ اور کوئی مذہب ایسا نہیں جو انسان سے محبت کا درس نہ دیتا ہو۔ رحمتِ عالم کا فرمان ہے کہ ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے۔ شیخ سعدی کہ شاعر تھے اور شاعروں کےلئے علامہ اقبال ؒ نے کیا اچھا کہا ہے کہ "جہاں اچھا شعر دیکھو سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی مسیح وہاں مصلوب ہوا ہے"۔ شیخ سعدی انسانیت کے جوہر کو ابتدا سے جوڑتے ہیں:

    بنی آدم اعضائے یک دیگر اند

    کہ در آفرینش زیک جوہر اند

    1947ءمیں تقسیم کے بعد بھارت کی خوش قسمتی تھی کہ گاندھی جی نے انسانی جوہر پر زور دیا۔ ان کی موت کے بعد جواہر لال نہرو لمبے عرصے تک سیکولر ہندوستان کے لیڈر رہے۔ نہرو تاریخی شعور رکھتے تھے۔ ان کی کتاب " Glimpses of World History" تاریخ کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہئیے!نہرو ہندوستانی سماج کی diversity کے قائل تھے وہ سیکولر سیاست اور سوشلسٹ معیشت میں یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری نظام کو ختم کیا جس سے جمہوری نظام مضبوط ہوا۔ مگر رفتہ رفتہ سرمایہ داری نظام نے ہندو مذہب کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کیا اور اس وقت بھارت میں 63 سیٹھوں کے پاس ایک ارب بیس کروڑ بھارتیوں کےلئے مختص سالانہ سرکاری بجٹ کے برابر دولت ہے۔ مسلم پاکستان کے مقابلے میں ہندو بھارت ہندوتوا اور بی جے پی کا تحفہ ہے۔ 1980ءکی دہائی میں ہندوتوا کی پذیرائی شروع ہوئی اور مسلم دشمنی سرکاری پالیسی بننے لگی۔ مسلم ماضی کی غلط توجیح کی گئی۔ مسلمان حملہ آوروں کا ہندوستان آنا تاریخ کا جبر تھا۔ مارکس کے خیال میں تمام تاریخ طبقات کی کشمکش کے علاوہ کچھ نہیں۔ تمام جنگوں اور حملہ آوری میں معاشی جہت کا کردار ہوتا ہے اور قرون وسطی کے مسلمان بادشاہوں کی فتوحات کے پیچھے اکیسویں صدی کے مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ جواہر لال نہرو کا خیال تھا کہ ہندوستان کے بے شمار چھوٹے چھوٹے راج واڑے باہم برسر پیکار رہتے تھے اور بعض اوقات خط لکھ کر باہر سے غنیم کو بلاتے تھے اور طاقتور بادشاہ لبیک کہتے تھے۔ تاریخی کھلواڑ کےلئے آج کا بھارتی مقامی مسلمان زمیں زاد ذمہ دار نہیں ہے اور شہریت کے ترمیمی ایکٹ(CAA)، نیشنل پاپولیشن رجسٹر(NPR) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) سے اسے ٹارگٹ کرکے مٹانے کا کوئی بھی تو جواز نہیں کہ یہ ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اندلس میں جو ہوا اس کا تناظر اور جدلیات اور تھیں۔ اور جرمنی میں ہٹلر اور فاشزم سے یہودیوں کو ٹارگٹ کرنا پاگل پن تھا!!

    بھارت میں بابری مسجد کے تنازعہ، بابری مسجد کی شہادت اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے بی جے پی کو عوامی پارٹی بنایا۔ مگر بھاجپا کا ہندو توا کا تصور بھارت میں بسنے والے تمام لوگوں، مذاہب کے ماننے والوں اور نسلوں کو ہندو کی شناخت دے کر diverse اور کثیرالقومی بھارت کی نفی کر رہا ہے۔ یہ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا کے مقابلے میں ہندو ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا کا رویہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمان زمیں زاد ہیں۔ اور ریاست سے مساوات اور انصاف کا حق مانگتے ہیں۔ وہ پرانے بادشاہوں کی غلطیوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ بس مشترکہ ثقافتی ورثے کے وارث ہیں!ادب، موسیقی، شاعری، تاج محل، اردو زبان اور فلم کی کوئی تاریخ مسلم زمیں زادوں کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ راحت اندوری خبردار کرتے ہیں :

    سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

    کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

    ہندو توا کے مطابق پرتھوی راج اورسیواجی مہاراج وغیرہ ہیروز ہیں اور اکبر اور ٹیپو سلطان تک کے بارے میں غیریت کا رویہ ہے!! جولوگ RSS اور بی جے پی سے اتفاق نہیں کرتے، ان کو ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ اس نظریے کی بنا پر مسلمانوں کیلئے دیس نکالا ہے یا ان کی قسمت میں گولی ہے۔ دلی میں لگنے والا حالیہ نعرہ اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے:

    دیش کے غداروں کو

    گولی مارو سالوں کو

    23 فروری 2020 کو کئی بار لٹنے والے بد قسمت دلی میں ایک فاشسٹ ہجوم نے پاگل پن میں غریب مسلمانوں کی آبادی جعفر آباد پر حملہ کیا جس میں 50 بےگناہ مارے گئے۔ گھر جلائے گئے، کاریں اور موٹر سائیکل نذر آتش ہوئے۔ اور پولیس اور میڈیا نے تماشا دیکھا اور دکھایا۔ 9 نومبر، 1938ءکو جرمنی میں بھی اک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا۔ کرسٹل ناخت (Kristallnacht) کے نام سے جانے والے تشدد میں تب 91 یہودی مارے گئے تھے۔ 267معبدوں کو جلایا گیااور7000 دوکانیں اور کاروبار متاثر ہوئے تھے۔ یہودی ہٹلر کے فاشزم کا شکار تھے۔ آریائی برتری کے زعم اور فاشزم نے ہیگل، کانٹ، مارکس، نطشے، بیتھون اور باخ کے عظیم جرمنی کو تاریخ کے کٹہرے میں مجرم بنا دیا۔ دلی کے قتلِ عام سے رام، کرشن، گوتم بدھ، اشوکا، نظام الدین اولیاء، اکبر، تان سین، میرا، کالی داس، میرو غالب، سبھاش چندر بوسں، نہرو اورگاندھی کا ہندوستان نفرت کی بھٹی میں جلتا ہے۔ آج بھارت میں مودی کی بھاجپا کی بادشاہی ہے۔ کل جرمنی میں ہٹلر کہ نازی پارٹی کا فاشزم تھا۔ دونوں میں مماثلت حیران کن ہے۔ ایسے وقت میں سیاستدانوں، ریاستدانوں، دانشوروں، شاعروں اور فنکاروں کا فرض ہے کہ لکیر کے فقیر نہ بنیں اور بلا تفریق لکیر کے اس طرف کے پاگل پن کو روکیں اور دیدہءعبرت نگاہ سے ہمیں دیکھیں!

    ارون دتی رائے بھارت کا روشن چہرہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ بھارت 1947ءکے بعد سے مسلسل ذہنی ترقی معکوس کے سفر پہ ہے۔ آزادی ملی تو بھارت سیکولر اور سوشلسٹ آدرشوں کے ساتھ جمہوریت اور مساوات کے راستے پر تھا۔ مہاتما مسلمانوں کےلئے مرن بھرت رکھتے تھے۔ 1960ءکی دہائی میں انقلاب کی جد و جہد سے امیدوں کے دئیے روشن تھے۔ اس کے برعکس آج بھارت ہندو شاونزم کی علامت ہے۔"Majoritarian Fascism"۔ اپنے عروج پر ہے۔ جمہوریت ہجوم کے رحم وکرم پر ہے اور مساوات ایک خواب ہے۔ آزادی کے 72سال بعد لوگ اپنی شہریت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور مسلمانوں کو نسل کشی کا سامنا ہے۔ ریاست اپنے بنیادی فرائض چھوڑ انتہا پسند نریندرا مودی کے سامنے ڈھیر ہو گئی ہے۔ عدالتوں کا کردارretrogressive ہے اور میڈیا، جس کا کام طاقتور کو discomfort اور کمزور کو comfort دینا ہے، سرکاری بیانیے کا بھونپو ہے۔ ستر لاکھ کشمیری ایک طویل عرصے سے محاصرے میں ہیں اور کشمیر ایک بڑا قید خانہ ہے۔ فاشزم سے جمہوریت کو ختم کیا جا رہا ہے اور یہ "This is our version of coronavirus.We "are sick۔ کوئی ملک یا اقوامِ متحدہ ہماری امداد نہیں کر رہا۔ آخر میں اس نے ایک چونکا دینے والی بات لکھی ہے کہ اس وقت ہمیں ایسے غیر مقبول رہنماوں کی ضرورت ہے جو سچ بولیں اور مصلحت کا شکار نہ ہوں!

    مگر جہاں کالی غربت ناچتی ہو۔ جہالت کا راج ہو۔ تعلیم کا فقدان ہو۔ روشن خیالی جرم ہو اور دلیل سے بات کرنے کا رواج نہ ہو، وہاں عقل کی بات جرم ہوتی ہے! ساحر لدھیانوی نے کہا:

    ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں

    ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں