" کشمیر بنے گا پاکستان" وقت کی مناسبت سے اہم ترین موضوع ہے۔ بھارت نے گزشتہ سال اگست میں اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس کے ردعمل میں ہماری حکومت نے جس انداز میں سفارتی مہم چلائی وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ وزیراعظم نے دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں اپنے وفود بھیجنے کے بجائے یہاں ٹیلی فونز کے ذریعے سفارت کاری کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد ہم نے بارہا حکومت سے مطالبہ کیا کہ جارحانہ سفارت کاری اپنائی جائے اور ایک بھرپور مہم چلائیں۔ ماضی میں ہماری حکومت نے مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا، اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کشمیر کے حوالے سے قومی جذبے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نریندرامودی نے اپنے حالیہ مسلم کش اقدامات کے ذریعے ایسا کام کر دیا ہے جس نے دوقومی نظریہ کی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ہمارے ہاں دوقومی نظریہ کی نفی کرنیوالے عناصر کی زبانیں اب بند ہو چکی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے جو دوقومی نظریہ پیش کیا، آج وقت اور حالات نے ان کا یہ فلسفہ اور سوچ سچ ثابت کر دکھایا ہے۔
کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ بابائے قوم نے بھی اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دےا تھا۔ تب ان کا یہ فرمان ہر کسی کو سمجھ نہ آسکا تھا مگر گزشتہ دو دہائےوں میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہماری طرف بہنے والے دریاوں پر درجنوں ڈیمز بنا کر اس پوزےشن میں آگیا ہے کہ جب چاہے، ہمارا پانی بند کرکے ہماری زرعی اقتصادیات کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ اب لوگوں پرقائداعظم کے اس فرمان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے۔ بھارت نے کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر رکھا ہے اور مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تصفیہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اگر قدرت قائداعظم کو مزید مہلت عطا فرما دیتی تو یقیناً وہ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کروا لیتے۔ زندگی کے آخری ایام میں یہ مسئلہ ان کے دل میں بسا ہوا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کی تمنا ان کی زندگی میں ہی پوری ہو جائے۔
5 اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارت نے اپنے مذموم عزائم کا ایک بار پھر اعادہ کردیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو کئی ماہ سے کرفیو کا سامنا ہے اور وہاں تعینات آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج نے ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ اسی پر بس نہیں، اب شہریت کے متنازعہ ترمیمی ایکٹ کے ذریعے بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے سروں پر شہریت سے محرومی کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ بھارت کی فاشسٹ حکومت اپنے غرور اور تکبر تلے ہی دب جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمان ہر روز بھارتی ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے " کشمیر بنے گا پاکستان "۔ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کے بعد اب وہ دن دور نہیں جب کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ دوسری طرف آج بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں حالیہ بھارتی انتہاپسندانہ اقدامات کے بعد نہ صرف مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزادی ملے گی بلکہ بھارت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، اس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور ایسا ہونے میں کوئی زیادہ عرصہ بھی نہیں لگے گا۔ بھارت کے اندر ایسی تحریک شروع ہو چکی ہے جو اب اس کے قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے 200سے زائد دن ہو چکے ہیں مگر بھارت اپنے مقاصد کے حصول میں ایک فیصد بھی کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ کشمیریوں کا جذبہ حریت جواں ہے اور وہ اپنی تحریک اسی شدت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انشاءاللہ کشمیریوں کی تحریک جلد کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ بھارت نے چھ ماہ سے زائد لاکھوں کشمیریوں کو کرفیوکے ذریعے بھوکا پیاسا قید کر رکھا ہے لیکن بہادر کشمیری آج بھی آزادی کے لیے دس لاکھ بھارتی فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی بات کریں تو ہمیں میاں نواز شریف کی یاد بڑی شدت سے ستاتی ہے۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بڑا جرات مندانہ موقف اپنایا تھا۔ میاں نواز شریف نے مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ پاکستان کو معاشی و ایٹمی قوت بنانے میں نواز شریف کا بڑا اہم کردار ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے اور بھارت ہم سے خوفزدہ ہے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں بھی مودی بھارت کا وزیر اعظم تھا مگر اس کی جرات نہ ہوئی کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر سکے۔ بھارتی وزیر اعظم واجپائی خود چل کر پاکستان آیا اور مینار پاکستان کے سائے تلے کشمیر کو مسئلہ تسلیم کیا۔ کشمیر مذہبی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی غرضیکہ ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے۔ وہاں کے عوام کے دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ پاکستان سے الحاق کے خواہش مند ہیں ہمارا بھی یہی ماننا ہے کہ جب تک کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہوتا، تب تک پاکستان کی تکمیل نہ ہوگی۔ وہاں کے مسلمان عوام بھارتی جبروتسلط کے خلاف مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے جس جرات اور بیباکی سے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا تھا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بڑے دوٹوک الفاظ میں عالمی برادری کو پیغام دیا تھاکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا دارومدار مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل پر ہے۔
بھارت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کبھی نہیں کچل سکے گا۔ آج وادی کشمیر "پاکستان سے رشتہ کیا؟ ?. لا الہٰ الا اللہ" اور "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ لاالہٰ الااللہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں نے پہلے انگریز سامراج سے آزادی حاصل کی تھی اور انشاءاللہ اب ہمارے کشمیری بھائی اسی کلمے کی بنیاد پر بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ ہماری جانب سے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو یہ مثبت پیغام جانا چاہئے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہاں جب ہم ان کے حق میں بات کرتے ہیں تو ان کے حوصلوں کو تقویت ملتی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروانے کا سنہری موقع ہے اور میرے خیال میں اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ مجھے امید ہے کہ جلد ایسی حکومت آئے گی جو کشمیر کاز کو آگے بڑھائے گی اور بھارتی مسلمانوں کی بھی توانا آواز بنے گی۔