ظفر عمران کی فیس بک پر مقامی اور غیرمقامی کی بحث پر ان کا کمنٹ پڑھا جس میں وہ لکھتے ہیں "ہمارے یہاں جس سے پوچھو، کسی کا پردادا ایران سے آیا، کسی کا یونان سے، کوئی کیان سے، کوئی عرب ہے، کوئی افغان تو کوئی ترک۔ اب وہ رہ گئے جو خود کو دھرتی کا بیٹا کہلوانا پسند کرتے ہیں تو وہ بھی آریہ نکلیں گے، کوئی شودر دھرتی کا بیٹا ہونے کا دعوے دار کم کم ہی نکلے۔ یہ جو "باہرلے" بنتے ہیں، یہ در اصل یہ نفسیات ہے کہ ہمارے اجداد یہاں حکم ران طبقے سے تھے، محکوم اقوام میں سے نہیں۔ جوتے گانٹھ رہا ہوگا اور فخر اس بات پر کہ میں فلاں حکمران خاندان سے ہوں، فخر جوتے گانٹھنے پر کرے تو بات بھی ہے"۔۔
اگرچہ دوسروں کی وال پر میں بحث میں حصہ نہیں لیتا۔ لیکن ظفر عمران کی وال پر یہ گنجائش مل جاتی ہے لہذا میں نے اپنا حصہ ڈالا۔
میں نے لکھا کہ سائنسی اور تاریخی اصول یہ ہے کہ ہر migrate کرکے کسی اور علاقہ یا ملک میں بس جانے والوں کی تیسری نسل مقامی/سن آف دی سائل بن جاتی ہے۔ ہجرت کرنے والوں کی تیسری نسل کے بچے پھر اس دھرتی کے بچے کہلاتے ہیں۔
اس لیے اکبر بادشاہ کو سن آف سائل کہا جاتا ہے کہ وہ امر کوٹ (سندھ) میں پیدا ہوا تھا جب اس کا باپ ہمایوں شیرشاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد ایران کی طرف جارہا تھا اور کچھ عرصہ کے لیے وہیں رک گیا جہاں مقامی سردار کی بیٹی حمیدہ بانو سے نکاح ہوا جس سے اکبر پیدا ہوا تھا۔
آج ہندوستان میں اکبر کو اپنا سمجھا جاتا ہے۔ خیر اکبر کو پسند کرنے کی کچھ وجوہات اور بھی ہوسکتی ہیں۔
اکبر کا دادا بابر اور باپ ہمایوں ہندوستان میں پیدا نہ ہوئے تھے لیکن وہ یہیں پر بس گئے تھے اور یہیں اپنے بچے پیدا کیے جنہوں نے پھر ہندوستان پرحکومت کی۔
آپ لاکھ کہتے رہے کہ فلاں دور دراز علاقے یا فلاں سرزمین سے آئے تھے لیکن تاریخی طور پر تیسری نسل مقامی ہوتی ہے اور ان کا بھی اس دھرتی پر وہی حق ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے آنے والوں کا تھا۔
انسانی تاریخ ہجرت کی تاریخ ہے۔ کوئی نہ کوئی کبھی نہ کبھی ہجرت کرکے، کسی نہ کسی نئے علاقے میں بسا تھا یا بستیاں بسائیں تھی۔ ہم سب آسمان سے تو نہیں اترے یا زمین سے انسان تو نہیں اگے تھے۔
ہم انسان صدیوں سے چلتے پھرتے رہتے ہیں، ایک جگہ نہیں ٹک پاتے، کبھی پانیوں کی تلاش میں تو کبھی اناج تو کبھی خوشحالی تو کبھی اپنی اور خاندان کی زندگی بچانے کے لیے ہجرت جاری رہتی ہے۔ آج بھی ہوتی ہے۔ لوگ آج بھی ہجرت کرتے ہیں اور کررہے ہیں۔
مجھے گارشیا کے ناول
One Hundred Years Of Solitude
کا ایک باب یاد آجاتا ہے۔ جب اس ناول کے مین کردار کا خاندان مسلسل ہجرت کررہا ہے تو ایک دن اس کی بیوی اپنے شوہر سے کہتی ہے بس اب مزید آگے نہیں جانا۔
ادھر ہی اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں۔ یہیں گھر بنا لیتے ہیں۔ اب ہم اور ہمارے بچے مستقل یہیں رہیں گے۔ اب یہی زمین ہی ہمارا وطن ہے۔
اس پر اس کا خاوند کہتا ہے نہیں یہ ہمارا وطن نہیں ہے۔ اپنا وطن یا دھرتی وہ ہوتی ہے جس کی مٹی میں ہمارے اپنے پیارے دفن ہوتے ہیں۔ اس مٹی میں ہمارا کوئی دفن نہیں ہے۔
اس کی بیوی نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر میں خود کو آج رات مار ڈالوں گی۔ تم مجھے یہیں اس مٹی میں دفن کر دینا پھرمیرے بچوں کا یہی وطن ہوگا۔