Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Raziya Ko Moqa Dein

Raziya Ko Moqa Dein

ٹوئٹر پر چند ایسے اکاونٹس ہیں جنہیں فالو کرتا ہوں اور بہت اچھی کونسلنگ ہوتی رہتی ہے۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آج ہی ایک اکاونٹ پر پڑھا کہ اگر آپ کسی خاتون ساتھ ریلششن شپ میں ہیں اور ہر وقت خود کو insecure سمجھتے ہیں اور اس لڑکی کو دنیا کے ہر مرد سے بچانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے کہ کوئی دوسرا نہ لے اڑے تو یہ کام فورا چھوڑ دیں۔

کچھ کام اس خاتون پر بھی چھوڑ دیں کہ وہ خود ان لوگوں سے دور رہے جنہیں آپ اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اگر وہ یہ کوشش نہیں کررہی تو پھر فضول میں اپنا لہو نہ جلائیں، اور پیچھے ہٹ جائیں۔ آپ اسے بچانے کے چکر میں نہ پڑیں کیونکہ وہ خود نہیں بچنا چاہتی۔ آپ کا تعلق اس طرح نہیں چلے گا۔

اگرچہ یہ مشورہ یقینا مغربی معاشرے کو سامنے رکھ کر دیا گیا ہے۔ مغربی معاشرے اور مرد ہم ایشائیوں سے بالکل مختلف سوچتے ہیں لہذا ان کے لیے ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسا کرنا یا سوچنا بھی ہماری عزت غیرت اور مردانگی کو چیلنج سمجھا جاتا ہے۔

لڑکی کو بچانے سے یاد آیا 1993 میں یونیورسٹی ملتان میں ہم لوگوں کے آخری دن چل رہے تھے۔ ہماری کلاس فیلو کی ایک دوست لڑکی کی شادی گھر والے فورا کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

آپ کو پتہ ہے ایک لڑکی کا مسلہ ہو تو پریشان پوری کلاس بلکہ پوری یونیورسٹی اور بوائز/ گرلز ہوسٹل تک سب ہوتے ہیں۔

آخر وہ مسلہ مجھ "شیانڑے" تک لایا گیا۔ میں نے کہا چلیں ڈاکٹر انوار احمد صاحب سے رائے اور مدد لیتے ہیں۔ ڈاکٹر انوار صاحب کے اندر جو ہر ایسے طالبعلم کے لیے "مادرانہ شفقت" بھری رہتی ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگرچہ ہم انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم اور ڈاکٹر صاحب اردو کے چیرمین لیکن ان پر سب اپنا حق شفہ رکھتے تھے اور وہ بھی ہر وقت مسکرا کر سب کو اپنا بچہ سمجھ کر ٹریٹ کرتے تھے۔ خیر ہم دو لڑکے اور دو لڑکیاں ان کے پاس گئے کہ جناب ظالم سماج سے بچائیں۔ ایک بے چاری اور بے بس لڑکی کا مستقبل تاریک ہونے سے بچائیں۔ انہیں پوری سنجیدگی اور پریشانی سے مسلہ بتایا کہ یہ ہماری اس دوست لڑکی کے لیے زندگی موت کا مسلہ تھا۔

ڈاکٹر صاحب کچھ دیر سنتے رہے اور پھر بولے آپ لوگوں کا مطلب ہے رضیہ بے چاری غنڈوں میں پھنس گئی ہے۔ ہم سب خوش ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کو پوری بات سمجھ آگئی ہے۔ ہم سب یک زبان بولے جی سر جی سر۔

ڈاکٹر صاحب مسکرا کر بولے ایک کام کریں کچھ کام "رضیہ" کو بھی کرنے دیں۔ رضیہ کو موقع دیں وہ بھی زرا غنڈوں سے دو دو ہاتھ کرے۔ تسلی رکھیں وہ ظالم سماج کے ان غنڈوں کو اکیلے ہینڈل کر لے گی۔

وہ لڑکی بھی ہمارے ساتھ تھی۔ وہ بھی اب سن رہی تھی اور پھر وہی ہوا۔

رضیہ نے خوب سب غنڈوں سے دو دو ہاتھ کیے۔ وہاں شادی نہیں ہوئی جہاں گھر والے فورا کرنا چاہتے تھے۔ پھر اس کے دو سال بعد شادی ہوئی اور وہ بیرون ملک میاں ساتھ چلی گئی۔ بڑے پیارے پیارے بچے ہوئے۔ ایک بیٹی کی کچھ عرصہ پہلے شادی تھی۔ مجھے دعوت نامہ آیا تو تیس سال پہلے کا وقت یاد آیا جب ہم سب رضیہ کے لیےپریشان تھے اور اگر پریشان نہیں تھے تو وہ ڈاکٹر انوار احمد نہیں تھے جنہیں پورا بھروسہ تھا کہ رضیہ خود ہی نمٹے گی۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.