Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Rauf Klasra
    4. Sada Murshid, Sada Guru, Rana Ijaz Mahmood

    Sada Murshid, Sada Guru, Rana Ijaz Mahmood

    ہائے ہائے کیا کمال بندہ تھا۔

    مجھے لگتا تھا اس جیسا پڑھا لکھا بندہ اور کوئی نہیں ہوگا۔ میں بائیس سال کا تھا جب رانا اعجاز محمود سے ملا رانا جیسا کردار کبھی دوبارہ زندگی میں کوئی نہ ملا۔ ایک غیرمعمولی انسان اور آرٹسٹ۔ ایک غیر معمولی دماغ۔ ایک غیر معمولی دوست جو آپ کے لیے جان قربان کر دے۔

    اب تک کتابوں میں راج پوت قوم کی پرم پرا، رکھ رکھائو، یاری دوستی، بہادری اور وسیع دسترخواں کا پڑھا تھا لیکن عملی زندگی میں ان تمام باتوں کا تجربہ راج پوتوں کے گھر ہوا۔ زندگی کے اچھے دال چاول رانا اعجاز کے گھر پکے ہوئے کھائے تھے۔ آج تک ان کا ذائقہ منہ سےختم نہیں ہوا۔ ہماری بہن اور بھابی وہ دال چاول اور دیگر کھانے پکاتیں تو انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔

    رانا اعجاز کے والد صاحب پرانے راج پوت تھے۔ وہی قدیم اسٹائل لیکن ان کے چہرے پر کیوٹ مسکراہٹ مجھے بہت بھاتی تھی۔ جب انہیں پتہ چلتا کہ رئوف گھر آیا ہے تو وہ بھی آجاتے۔ مجھے پیار کرتے۔ کچھ دیر بعد پوچھتے ہاں بھائی کلاسرے تے جج (رانا اعجاز کا نک نیم) تہاڈا سرائیکی صوبہ کتھے تک پہنچا۔۔

    رانا اعجاز سرائیکی صوبے کا بہت بڑا حامی تھا۔ اس نے اس کے لیے باقاعدہ سرائیکی زبان سیکھی اور کیا کمال سرائیکی بولتے تھے۔

    رانا اعجاز مجھے آنکھ مار سنجیدہ ہو کر کہتا ابو جی بس تھوڑے دناں دی گل اے۔ اپنا صوبہ ہوئوے گا۔

    اس پر بڑے رانا صاحب تپ جاتے اور رانا اعجاز کو خوب سناتے۔ وہ غصہ اتار کر چپ ہونے لگتے تو رانا اعجاز پھر کوئی بات کرتا تو بڑے رانا صاحب ہم دونوں کو سمجھاتے۔

    رانا اعجاز نے بتایا تھا وہ اپنا خاندان کٹوا کر ہندوستان سے پاکستان آئے تھے۔ انہیں لگتا تھا پھر بٹوارہ ہونے لگا ہے۔ انہیں پھر لہو بھری ہجرت کرنی پڑے گی۔ پھر خاندان کی قربانی دینی پڑے گی۔ پہلے باپ کی بہنیں ہجرت میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں تو اب تو ان کا خاندان بڑا ہوچکا تھا وہ اس عمر میں کسی کا نقصان برداشت نہیں کر سکیں گے۔

    میں ان سے اس موضوع پر بات نہیں کرتا تھا۔ مجھے ان کی پنجابی بہت اچھی لگتی تھی۔ وہی راج پوتوں والی تیز تیز پنجابی۔ رانا اور ان کے ابو کی بحث ہوتی اور آخر پر وہ رانا اعجاز کو باپ والی محبت بھری گلاں سنا کر اٹھ جاتے اچھا رئوف پتر آندا جاندا رہیا کر۔

    اور پھر ایک دن بڑے رانا صاحب چل بسے تو چوک اعظم ان کے قل پر گیا۔ رانا اعجاز اور میں کافی دیر افسردہ بیٹھے رہے۔ کہیں سے بڑے رانا صاحب کی آواز نہ آئی۔۔ اوے جج توں دسیا وی نہیں رئوف آیا اے۔ تے فیر کتھے تک پہنچا تساں دوہاں دا سرائکی صوبہ اور پھر چند برس بعد اسی جگہ رانا اعجاز کے بھائیوں کو اس کی درد بھری وفات پر بھیگی آنکھوں سے بیٹھا پرسہ دے رہا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد ان کے بڑے خالد بھائی بھی چل بسے۔

    ایک ہی گھر کے تین بڑے یکے بعد دیگرے چل دیے۔ اس گھر میں میرا بہت جانا تھا۔ یہ میرا اپنا گھر تھا۔ میرے اپنے لوگ تھے۔ بہن کے پکائے دال چاول آج بھی یاد آتے ہیں۔ رانا اعجاز کا چھوٹا بھائی جاوید ہماری خدمت کرتا، خوبصورت شخصیت کا مالک ناصر محمود ہمارے نخرے اٹھاتا اور پھر وہی آوازیں خاموش ہوگئیں۔ نہ جج رہا اور نہ ہی اسے جج بلانے والے رہے اور نہ ہم سے کوئی پوچھنے والا رہا رئوف پتر فیر تہاڈا صوبہ کتھے تک پہنچا۔

    ہمارے گرو اور مرشد رانا اعجاز اور بڑے رانا صاحب کی چوک اعظم قبرستان میں قبریں قریب قریب ہیں۔ شاید اب بھی کبھی کبھار بوریت سے تنگ راج پوت باپ بیٹے میں وہی پرانی بحث چھڑ جاتی ہو۔۔

    پتر جج فیر دس تہاڈا صوبہ کتھے تک پہنچا۔

    About Rauf Klasra

    Rauf Klasra

    Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.