Askari Tanzeemain Tareekh Ke Aainay Main (2)
Riayatullah Farooqui114
امریکی صدر آئزن ہاؤر کاسترو کا تختہ الٹنے کی منظوری دے چکے تھے اور سی آئی اے امریکہ میں کیوبا کے 2506 مہاجرین کو مسلح کرکے بغاوت کی تیاری کا آغاز کر چکی تھی کہ 1961ء میں جان ایف کینیڈی اقتدار میں آگئے۔ کینیڈی نے اس آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تو سی آئی اے نے یہ کہہ کر انہیں رام کر لیا کہ 2506 افراد کے جس لشکر کو ہم نے تربیت دی ہے، اسے آپریشن کی منسوخی کا کہیں گے تو وہ ہم پر ہی چڑھ دوڑے گا، لہٰذا انہیں مشن پر بھیجنا ضروری ہے۔ کینیڈی نے مشن کی کامیابی کی ضمانت مانگی تو سی آئی اے نے 100 فیصد کامیابی کی گارنٹی دیدی۔ سی آئی اے نے یہ آپریشن اس طرح ترتیب دیا تھا کہ امریکی مافیا نے کاسترو کو زہر دے کر قتل کرنا تھا اور ساتھ ہی کیوبا کے ساحل "بے آف پگز" پر 2506 عسکریت پسندوں نے اتر کر حملہ کر دینا تھا۔ کاسترو کے قتل اور ساتھ ہی حملہ کسی کو سنبھلنے ہی نہ دیتا مگر مافیا کاسترو کو زہر دلوانے میں ناکام ہوگئی. زہر دینے کے لئے طریقہ یہ اختیار کیا گیا تھا کہ کاسترو ایک مخصوص دکان پر روز رات کو ملک شیک پینے جاتا تھا۔ مافیا نے ملک شیک بنانے والے کو المونیم کے خول میں سائنائڈ دیا جو اس نے ملک شیک میں ملانا تھا۔ ملک شیک بنانے والے نے یہ خول ریفریجریٹر کے برف والے خانے میں رکھدیا اور جب کاسترو آئے تو اس وقت تک وہ خول برف میں چپک چکا تھا جسے باوجود کوشش کے وہ چھڑا نہ سکا۔ ادھر کاسترو قتل ہونے سے بچ گئے جبکہ ادھر عسکریت پسند (17 اپریل 1961ء ) بے آف پگز پر جا اترے اور فورا ہی نظروں میں بھی آگئے۔ کاسترو کی فورسز نے ان کا صرف 72 گھنٹوں میں بھرکس نکال دیا اور امریکہ کو ایک عالمگیر خفت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ صدر جان ایف کینیڈی کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی انہوں نے کہدیا "میں سی آئی اے کے ہزاروں ٹکڑے کرکے ہوا میں اڑا دوں گا" ساتھ ہی کینیڈی نے دو اہم اقدامات بھی اٹھا لئے۔ پہلا یہ کہ سی آئی اے کے سربراہ ایلن ڈیلس اور اس کے ڈپٹی کو گھر بھیج دیا۔ دوسرا یہ کہ نیشنل سکیورٹی ایکشن میمورینڈم نمبر 55 جاری کیا جس میں کینیڈی نے کہا "آج کے بعد حالت امن میں بھی مجھے سکیورٹی ایشوز پر مشاورت مہیا کرنا جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی ذمہ داری ہوگی" ان دو اقدامات کے ساتھ ہی نئے سی آئی اے چیف کو کینیڈی نے حکم دیا کہ وہ سی آئی اے کو "کٹ ٹو سائز" کرے۔ اب یہ وہ عرصہ تھا جب سی آئی اے لاؤس سے ویتنام کی جانب اپنے آپریشنز شفٹ کر رہی تھی اور اگلے چند سالوں میں وہ ویتنام کے پانچ لاکھ شہریوں کو مسلح کرکے اس دور کی سب سے بڑی عسکریت پسندی کو وجود بخشنے جا رہی تھی اور کینیڈی اس کے لئے بھی آمادہ نہ تھے۔ نتیجہ یہ کہ کینیڈی قتل کردیئے گئے اور قتل کے ساتھ ہی نئے صدر لنڈن جانسن نے میمورینڈم آڈر نمبر 55 کو بھی منسوخ کردیا اور معنی خیز بات یہ ہے کہ کینیڈی 22 نومبر 1963ء کو قتل ہوئے جب کہ منسوخی کے اس آڈر پر جانسن کے دستخط 21 نومبر کے ہیں۔ جانسن نے کینیڈی کے قتل کی تحقیقات کے لئے جو "وارن کمیشن" بنایا اس میں سی آئی اے کے اسی سابق دائریکٹر ایلن ڈیلس کو بھی شامل کرلیا جسے کینیڈی نے برطرف کیا تھا۔ سو اندازہ لگا لیجئے کہ کس قسم کی تحقیقات مطلوب تھیں اور یہ تحقیقات اس درجے کی شرمناک ہیں کہ جس دن رپورٹ صدر کو پیش ہوئی ہے اس دن سے ٹھیک پچھتر سال بعد اس کی دستاویزات عوام کے لئے کھولنے کا حکم ہے۔ یعنی 2039ء میں۔ سی آئی اے سے صرف جان ایف کینیڈی کو ہی شکایت نہ تھی بلکہ سی آئی اے کی تخلیق کا حکم دینے والے صدر ہیری ٹرومین بھی ساٹھ کی دہائی میں اس کے کرتوتوں سے پریشان تھے۔ چنانچہ کینیڈی کے قتل سے ٹھیک ایک ماہ قبل انہوں نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مختصر نوٹ میں لکھا "یہ ایجنسی جس طرح کی بن گئی ہے اس طرح کی میں نے ہرگز نہیں چاہی تھی" یہ پڑھتے ہی سی آئی اے کو بنانے والا ایلن ڈیلس ہیری ٹرومین کے پاس پہنچا اور ان سے یہ نوٹ واپس لینے کا کہا جس سے ٹرومین نے انکار کردیا۔ سی آئی اے نے نہ صرف صدر کینیڈی کو مروایا بلکہ کٹ ٹو سائز کے خطرے کو کم کرنے کے لئے اس نے متبادل مالیاتی ذرائع بھی تلاش کر لئے کیونکہ کٹ ٹو سائز کا سب سے آسان طریقہ بجٹ میں کمی ہوتا ہے۔ سی آئی اے کا متبادل مالیاتی ذریعہ لاؤس سے ہیروئین کی سمگلنگ کی صورت شروع ہوا۔ اور صرف وہی نہیں بلکہ آج کے ایل پاچو گوزمان کا میکسیکن ڈرگ کارٹیل بھی سی آئی اے کا ہی مانا جاتا ہے۔ جس کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایل پاچو گوزمان کے ایک پارٹنر پر شکاگو کی عدالت میں مقدمہ شروع ہوا تو اس کے وکیل نے عدالت سے کہا "آپ یہ مقدمہ نہیں سن سکتے کیونکہ اس کارٹیل کو استثناء حاصل ہے" اور صرف یہی نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان ڈرگز کی پیداوار ختم کرچکے تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں کے آتے ہی یہ دوبارہ شروع ہوگئی۔ اب آئیے کے جی بی کی جانب. پچاس کی دہائی میں سی آئی اے نے ڈکٹیٹرشپ اور عسکری تنظیموں کے قیام کے آپریشنز اوپر تلے اس کامیابی کے ساتھ کئے کہ یہ ایک ٹرینڈ بن گیا اور دیگر ایجنسیوں نے بھی یہی راہ اختیار کر لی لیکن ان میں سے ڈکٹیٹر شپ قائم کروانے میں سی آئی اے کے علاوہ صرف کے جی بی ہی کامیاب ہوئی کیونکہ اس کے لئے جس درجے کی قدرت چاہئے ہوتی ہے وہ ایک سپر طاقت کے پاس ہی ہوتی ہے۔ کے جی بی نے صرف دکٹیٹرشپس ہی قائم نہیں کروائیں بلکہ حریفوں کے ہاں عسکریت کو بھی فروغ دیا۔ چنانچہ جرمنی اور اٹلی میں ریڈ بریگیڈ جیسے گینگ بنوانے، ویتنام میں کمیونسٹوں کو مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی عسکری تنظیموں کو بھی نہ صرف یہ کہ وہ ہتھیار فراہم کرتی رہی بلکہ ان تنظیموں کو ماڈرن ٹیک ٹکس بھی سکھائیں جن میں سب سے مشہور "طیارہ ہائی جیکنگ" ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں فلسطینی تنظیموں نے درجنوں طیارے اغوا کئے۔ طیارہ ہائی جیکنگ کی یہ وارداتیں ایسی موثر اور حیران کن تھیں کہ 1971ء میں کی جی بی کے پہلے سربراہ Aleksandr Sakharovsky نے فخر کے ساتھ اعلان بھی کردیا کہ طیارہ ہائی جیکنگ کا تصور میرا کارنامہ ہے۔ کے جی بی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سب سے بنیادی مقصد یعنی خفیہ رازوں کے حصول اور درست تجزیئے میں اس درجے کی بے مثال تھی کہ 1983ء میں ٹائم میگزین نے اس کا اعتراف کیا۔ امریکہ کا پہلا ایٹم بم بنانے والی ٹیم سے لے کر ایف بی آئی، سی آئی اور ایم آئی 6 کے ہیڈ کوارٹرز تک کوئی بھی جگہ ایسی نہ تھی جہاں اس کی آنکھیں اور کان موجود نہ ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ سی آئی کا کاؤنٹر انٹیلی جنس چیف ایک موقع پر ایسا افسر رہا جو کے جی بی کا ہی ایجنٹ تھا۔ اس حوالے سے سی آئی اور ایم آئی 6 کی سب سے بڑی نالائقی دیکھنی ہو تو "برلن ٹنل" کا وہ سکینڈل کہیں سے ڈھونڈ کر پڑھ لیجئے جب یہ دونوں ایجنسیاں خوش تھیں کہ ہم رشیا کے سارے راز حاصل کر رہے ہیں اور کے جی بی پیشگی ہی اس ٹنل سے واقف تھی اور وہ مزے سے انہیں ماموں بناتی رہی۔ عسکری تنظیمیں قائم کروا کر حریف ممالک کو غیر مستحکم یا برباد کرنا ان ممالک کے لئے بھی ایک آسان کام ثابت ہوا جو سپر طاقت نہ تھے۔ چنانچہ دنیا کی دیگر بہت سی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی "را" اور ہماری آئی ایس آئی نے بھی یہ تنظیمیں قائم کیں . لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی اس جانب سب سے آخر میں آئی، جب اس نے دیکھا کہ خفیہ ایجنسیوں کی دنیا میں اب یہی سکہ رائج الوقت ہے اور وہ سمجھ گئی کہ ہماری آج کی اس دنیا میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل اہداف حاصل کرنے کا اب طریقہ ہی یہ طے ہوگیا ہے کہ حریف کو عسکری تنظیموں کے ذریعے کمزور یا تباہ کیا جائے۔ (جاری ہے)