Dr. Mahathir Mohamad Ki Wapsi
Riayatullah Farooqui101
ہونے کو سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے سو اس کے کوچوں سے تحیر کا گزر کم ہی ہوتا رہا ہے لیکن لگتا ہے یہ کوچے بھی اب تحیر کو مستقل جگہ دینے کی تیاری میں ہیں۔ ابھی ان کوچوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور بریگزٹ کے تحیر سے دانتوں تلے دبی انگلیوں نے خود کو دانتوں کی گرفت سے چھڑایا ہی تھا کہ ایک اور تحیر نے دانتوں کو انگلیوں کا استقبالی بنا دیا ہے۔ اس بار حیرت کا ساماں اس ملائیشیا میں ہوا ہے جہاں ساٹھ سال سے ایک ہی جماعت حکومت کئے جا رہی تھی۔ ساٹھ سال سے ایک ہی جماعت کی حکومت کا مطلب یہ کہ ملائیشیا میں تو دو جماعتوں کی باریاں بھی نظر نہ آتی تھیں۔ انتخابات نہ صرف ہوتے رہے بلکہ صاف و شفاف بھی ہوتے رہے لیکن باری ہر بار بریسن نیشنل کو ہی ملتی رہی۔ پھر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ کہ اس ایک جماعت کے ساٹھ سالہ اقتدار میں بھی بائیس سال صرف ایک شخص ڈاکٹر مہاتیر محمد نے حکمرانی کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملائیشیا کسی سیاسی انتشار سے دوچار ہونے کے بجائے نہ صرف سیاسی طور پر مستحکم رہا بلکہ ترقی کے سفر پر بھی گامزن رہا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد بائیس سال حکومت کرنے کے بعد 2003ء میں سیاست سے رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہوگئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے اعلان کے وقت ڈاکٹر مہاتیر مطمئن اور ملائیشین قوم اداس تھی کیونکہ مہاتیر ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ملائیشیا کو سیاسی و معاشی طور پر ایک مستحکم ملک بنا یا تھا۔ مہاتیر یہ کرشمہ دکھانے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ ایک تو انہیں اپنے منصوبوں کو پہلے تعمیر اور پھر نتیجے تک پہنچانے کے لئے درکار عرصہ ملا، صرف پانچ سال میں ہی کسی نے نتائج نہ مانگے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر مہاتیر یا ملائیشیا کے کوئی عالمی ایجنڈے نہ تھے۔ نہ ملائیشیا نے اپنے پڑوس میں جہاد کے نام پر وہ جنگ دہکائی جو بجٹ کا غالب حصہ کھا جاتی ہے اور نہ ہی انہیں ملائیشیا کی سرحدوں سے باہر واقع کسی قلعے پر اسلام کا جھنڈا لہرانے کا شوق پیدا ہوا۔ ڈاکٹر مہاتیر کی تمام تر توجہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود پر مرکوز رہی۔ ان کے پاس ملائیشیا کی ترقی کا وژن تھا اور عوام کے پاس ووٹ۔ عوام نے انہیں بار بار جتایا اور وہ ایک تسلسل کے ساتھ اپنے وژن کو عملی شکل دیتے چلے گئے۔ جس دن انہیں لگا کہ وہ اپنے حصے کا کام مکمل کرچکے تو اسی روز سیاست سے ریٹائر ہوگئے اور پھر پندرہ سال تک سکون سے گھر پر ہی رہے۔ حالیہ عرصے میں ملائیشیا داخلی انتشار کی سی صورتحال سے دو چار رہا ہے۔ ایک طرف عوام میں جی ایس ٹی اور معاشی ابتری نے بے چینی پیدا کی تو دوسری جانب وزیر اعظم نجیب رازق کو ایم ڈی بی کرپشن سکینڈل کا سامنا رہا جس کی چھ ممالک تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کے سب سے اہم رہنماء انور ابراہیم کو تین سال سے نجیب رازق کی حکومت نے جیل میں ڈال رکھا تھا جس سے وہ سیاسی خلاء پیدا ہوا جس کے ہوتے وزیراعظم نجیب رازق کو سنجیدہ سیاسی چیلنج دینے والا کوئی نہ تھا۔ پندرہ سال سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد اسی خلاء کو پر کرنے آئے۔ مہاتیر کی واپسی اتنا بڑا سیاسی سرپرائز تھا کہ نجیب رازق کیا عالمی تجزیہ کاروں کو بھی اس کی دور دور تک کوئی امید نہ تھی۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے صرف اس خلاء کو پر ہی نہ کیا بلکہ 93 برس کی پیرانہ سالی میں ساٹھ سال سے حکومت کرتی جماعت کا اقتدار اکھاڑ پھینکا۔ یہاں تحیر در تحیر یہ ہے کہ مہاتیر نے اسی حکمران اتحاد کا اقتدار لپیٹا ہے جو کبھی ان کا اپنا اتحاد ہوا کرتا تھا۔ یوں وہ اپنی ہی جماعت کے خلاف میدان میں آئے۔ ملائیشیا کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ انور ابراہیم ڈاکٹر مہاتیر محمد کے آخری دور حکومت میں نائب وزیر اعظم تھے اور خود مہاتیر محمد نے ان پر کرپشن اور بچوں سے زیادتی کے الزامات لگا کر جیل پہنچایا تھا مگر سپریم کورٹ نے 2004ء میں انہیں اس کیس سے بری کر دیا تھا۔ 2014ء میں انور ابراہیم ایک بار پھر سیاسی خطرہ بنے تو اس بار حکومت نجیب رازق کی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر مہاتیر والا حربہ ہی دہرا دیا۔ ایک بار پھر ہم جنس پرستی کے الزام لگے اور ایک بار پھر انور ابراہیم جیل پہنچ گئے مگر اس بار انہیں سپریم کورٹ سے سزا ہوئی جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ انور ابراہیم کا سیاسی کیریئر تمام ہوا۔ مگر سیاست کے رنگ دیکھئے کہ اس بار ڈاکٹر مہاتیر نے نہ صرف ان کے جیل جانے سے پیدا ہونے والا خلاء پر کیا بلکہ یہ اعلان کردیا کہ اگر وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کا وزیر اعظم بننا عارضی ہوگا کیونکہ وہ بادشاہ سے انور ابراہیم کی سزا معاف کروا کر اقتدار انہیں کو سونپ دیں گے اور خود اپنی ریٹائرمنٹ انجوائے کرنے لوٹ جائیں گے۔ اس پس منظر میں اگر غور کریں تو ملائیشیا کا موجودہ سیاسی منظرنامہ دو باتیں کہہ رہا ہے۔ پہلی یہ کہ سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ مہاتیر جیسا لیجنڈ بھی 1998ء میں جس انور ابراہیم کو جیل بھیجتا ہے بیس سال بعد اسی انور ابراہیم کو ریسکیو کرنے کے لئے اسے ریٹائرمنٹ کا اعلان واپس لینا پڑتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا۔