Jamhuri Landa
Riayatullah Farooqui104
آپ نے سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کا ذکر تو خوب سنا ہوگا، وہی سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں جن کا کار و بار پاکستان میں نئی گاڑیوں سے کئی گنا بڑا ہے۔ ان گاڑیوں کے مستقل شورومز بھی ہیں، ان کے اتوار اور جمعہ بازار بھی لگتے ہیں، یہ افغان ٹرانزٹ کے ذریعے بھی ہماری سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہیں، مشہور تشہیری ویب سائٹس و اخبارات کے کلاسیفائیڈ اشتہارات کی مدد سے براہ راست بھی بیچی اور خریدی جاتی ہیں اور یہ جاپان اور کوریا سے امپورٹ بھی کی جاتی ہیں۔ غرضیکہ یہ ایک غیر معمولی اور کئی جہتوں میں پھیلا کار و بار ہے۔ یہاں بس سوچنے والی بات یہ ہے کہ سیکنڈ ہینڈ اگر لباس ہو اور پرانے کپڑوں کے بازار میں فروخت ہورہا ہو تو اسے لنڈے کا مال کہتے ہیں۔ ہر چند کہ سفید پوش تو لنڈے کا مال بے جھجک استعمال کرتے ہیں لیکن جن کی جیب میں نوٹوں کی ذرا سی بھی گرمی ہو وہ لنڈا بازار کے قریب سے بھی گزریں تو تیز تیز گزرتے چلے جاتے ہیں کہ ناگاہ کوئی دیکھ لے۔ مگر یہی لوگ لنڈے کی گاڑی سے اتر کر اس کی چابی انگلی میں یوں گھما رہے ہوتے ہیں جیسے مائیکل شوماکر کے خاندان سے ہوں۔ لنڈے یعنی سیکنڈ ہینڈ کپڑوں اور جوتوں سے تو آپ بخوبی واقف تھے لیکن اس جانب پہلی بار متوجہ ہوئے کہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی تو فی الحقیقت لنڈے کی ہی گاڑی ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک تیسری چیز بھی فی الحقیقت لنڈے کی ہے اور سیکنڈ ہینڈ گاڑی کی طرح بھرم بازی کے کام آتی ہے مگر آپ اس کے اس پہلو سے آگاہ نہیں۔ یہ تیسری چیز لنڈے کی گاڑیوں کی طرح سارا سال مارکیٹ نہیں ہوتی بلکہ لنڈے کے کپڑوں کی طرح اس کا سیزن ہوتا ہے اور اس کا بازار اپنے سیزن پر ہی لگتا ہے۔ میری مراد وہ سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز ہیں عام انتخابات جن کا سیزن ہوتا ہے۔ جمہوریت کی چھتری تلے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کی وہ نظم روبعمل ہوتا ہے جس کے پیچھے فلسفے، کلام اور سوشل سائنسز کے علوم کی ہزاروں برس کی روایت کھڑی ہے۔ وہ روایت جس نے کئی نظریات کو جنم دیا ہے اور بات جب نظریے کی ہو تو اس کا مطلب مکمل وابستگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا مگر جس ملک میں جمہوریت انسانی فلاح و بہبود کے بجائے تجارت بن چکی ہو وہاں پھر اس حوالے سے بھی بازار ہی قائم ہوسکتے ہیں۔ بازاروں کی اقسام کی فہرست تب تک تمام ہی نہیں ہوسکتی جب تک اس میں لنڈا بازار بھی شامل نہ ہو۔ سو ہماری جمہوریت کے بہت سے بازاروں میں اگر ایک بازار ان سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز کا بھی ہے جو اپنی حقیقت میں جمہوریت کا لنڈا ہیں تو یہ حیران ہونے سے زیادہ ماتم کا مقام ہے۔ ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتی نون لیگ اس کی جگہ لیتی اور نون لیگ کو رخصت کیا جاتا تو پیپلز پارٹی کی واپسی یقینی ہوتی۔ اس دور میں یہ سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز ہر بار بس دائیں بائیں ہوتے رہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوتی تو لنڈے کا یہ مال نون لیگ اٹھا لیتی اور نون لیگ کو چلتا کیا جاتا تو یہی مال پیپلز پارٹی تھرڈ ہنڈ مال کے طور پر سنبھال لیتی۔ مگر اب سات آٹھ سال سے ایک تیسری پارٹی پاکستان تحریک انصاف بھی میدان میں ہے اور پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی جمہوری لنڈے کی سب سے بڑی خریدار وہی ہے۔ 2018ء میں پیپلزپارٹی ہماری جمہوری تاریخ کا سب سے بڑا لنڈا بازار جبکہ تحریک انصاف لنڈے کی سب سے بڑی خریدار ثابت ہوئی ہے۔ ہرچند کہ زیادہ تر سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز اتوار اور جمعہ بازار سے اٹھائے گئے ہیں لیکن اس جماعت کے پاس سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز کی جملہ اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک امپورٹڈ ری کنڈیشن گاڑیوں کی طرح اس کے پاس ری کنڈیشن امپورٹڈ امیدوار بھی ہے۔ اس کے پاس ایسا الیکٹ ایبلز بھی ہے جو واقعی سیکنڈ ہینڈ ہے۔ عمران خان کو یہ جنرل مشرف کے کباڑی بازار میں پسند آگئے تھے، تب سے یہ سیکنڈ ہینڈ میں خان صاحب کے پاس موجود ہیں۔ ایک تھرڈ ہینڈ الیکٹ ایبل ہیں کہ یہ فرسٹ ہینڈ میں مشرف کے پاس تھے، سیکنڈ ہینڈ میں پیپلز پارٹی کا مال رہے اور آج کل ان کے جملہ حقوق خان صاحب کے نام ہیں۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے پاس ایسے سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز بھی بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں جو افغان ٹرانزٹ گاڑیوں کی طرح قانون کو مطلوب ہیں اور یہ یہاں اپنا انجن و چیسی نمبر تبدیل کروا کر "صاف و شفاف" ہونے آئے ہیں۔ جس طرح سیکنڈ ہینڈ گاڑیاں بس سیکنڈ ہینڈ ہی نہیں رہتیں بلکہ یہ تھرڈ، فورتھ اور ففتھ ہینڈز سے ہوتے ہوئے آگے کا سفر جاری رکھتی ہیں یہاں تک کہ کراچی کی سڑکوں پر ستر اور ساٹھ کی دہائیوں کی ایسی گاڑیاں بھی عام نظر آجاتی ہیں جنہیں اب خود بھی یاد نہیں کہ ان کا موجودہ مالک دسواں ہے کہ بیسواں؟ بالکل اسی طرح پی ٹی آئی میں بھی کئی الیکٹ ایبلز ایسے ہیں جنہیں اب خود بھی یاد نہ ہوگا کہ ان کے خریداروں میں خان صاحب کا نمبر کونسا ہے؟ یہ پچھلے تیس پینتیس سال سے ہر الیکشن میں اس ہاتھ سے اس ہاتھ ہوتے آئے ہیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد قدرے بہتر حالت والے سیکنڈ ہینڈ الیکٹ ایبلز تو خاموشی سے پی ٹی آئی میں گئے مگر جنوبی پنجاب سے خریدے گئے ایک پرانے ٹرک نے بہت دھواں بھی چھوڑا۔ لنڈے کا مال تو خان صاحب نے بہت جمع کرلیا ہے اب بس دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کی شاہراہ پر ان میں سے ٹائر کس کس کے پھٹتے ہیں، چالان کن کن کا ہوتا ہے، انجن کس کس کا سیز ہوتا ہے اور دھواں کون کون مارتا ہے۔ اب لنڈے کے مال کی گارنٹی تو کوئی نہیں ہوتی نا!