Maktoob Nigari
Riayatullah Farooqui125
نائی کی دکان میں اچانک داخل ہونے والا مجذوب گویا ہوا:"مجھے خط لکھوانا ہے!"بال تراشتے جاوید صاحب، بال رنگوائے بیٹھے پروفیسر انیس زیدی اور انتظاری نشست سنبھالے مجھ سمیت سب ہی کچھ دیر کے لئے سناٹے کے زیر اثر آگئے۔ شاید اس مجذوب نے ہم میں سے ہر شخص کو آن واحد میں اس زمانے کی جانب لوٹا دیا تھا جب اپنی بات کسی عزیز تک پہنچانے کے لئے خط اور تار والا فون ہی کل عوامی ذرائع اتصالات ہوا کرتے۔ تب ناخواندہ مرد و زن خط لکھوانے کو کسی پڑھے لکھے کے پاس جایا کرتے۔ وہ اپنے خط املا کراتے اور ایک ہی بات بار بار دہراتے تو لکھنے والے کے دماغ کا دہی کر دیتے۔ یہ ایک نہایت جھنجلا دینے والی سرگرانی سرگرمی ہوا کرتی مگر ہوا بہر حال کرتی کہ ناخواندہ کو بھی تو اپنی بہت ضروری باتیں دور دراز بیٹھے عزیز کو پہنچانی ہوتیں۔ مجھے اپنے لڑکپن کے عہد رفتہ والے کراچی میں تو کبھی کسی کے لئے خط لکھنے کا اتفاق نہ ہوا، البتہ گاؤں جب بھی جانا ہوا دو ڈھائی ماہ کے دوران کوئی درجن بھر خطوط تو اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے لکھنے پڑ ہی جاتے۔ گاؤں کے خط لکھوانے والوں میں اکثریت ایسی خواتین کی ہوتی جن کا بیٹا یا میاں کراچی میں ہوتا اور مکتوب الیہ بھی وہی ہوتا۔ بیٹے کو خط کے ذریعے مخاطب کرنے والی بوڑھی ماں جب خط لکھواتی تو مادری شفقت اور پختون حاکمانہ آہنگ املا میں شانہ بشانہ چلتے۔ یہاں ماں کے لہجے میں پختون حاکمانہ آہنگ کی ترکیب کا اس کی پوری معنویت سمیت لطف صرف پختون ہی لے سکتا ہے۔ پختون ماں عام طور پر سخت گیر ہوا کرتی ہے۔ میں نے پنجابی ماؤں کو اظہار شفقت میں زیادہ سخی پایا ہے۔ ایک پنجابی ماں اپنے بچے کو بازار سے کچھ لانے کا کہے تو یوں گویا ہوتی ہے:"جا میرا بچہ جلدی سے پاؤ دودھ لے آ، جا میرا بچہ شاباش!"بے پناہ شفیق لہجے میں کہے گئے اس جملے کے اختتام پر وہ اپنے منہ سے ہوائی بوسے والی آواز بھی نکال دے گی۔ لیکن یہی بات ایک پختون ماں یوں کہتی ہے:"اے سنڈا کافرا! ورشا پاؤ دودھ راؤڑا، پہ یو سات (ساعت) کی زہ او پہ یو سات کی رازہ"ترجمہ: "اوے سنڈے کافر! جا پاؤ دودھ لے کر آ، اور دیکھ آن واحد میں جا اور آن واحد میں آ"اس جملے میں جب وہ "آن واحد" پر پہنچتی ہے تو اس کی دھمکی آمیز نگاہیں تو بس دیکھنے کی ہی چیز ہوا کرتی ہیں۔ یہ انہی خون آشام نظروں کا اثر ہوتا ہے کہ پٹھان بچہ اکثر و بیشتر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار والے جناتی عفریت کی طرح آن واحد میں آنے جانے پر قادر پایا گیا ہے۔ اب آپ خود سوچئے کہ جب ایسی ہی پختون مائیں سینکڑوں میل دور بیٹھے بیٹے کو لکھوایا جا رہا خط املا کرا رہی ہوں۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے حاکمانہ آہنگ کے بھی زیر اثر ہوں مگر مدت سے بیٹے کو دیکھ نہ پانے کے سبب ان کے دل میں "مادری شفقت" بھی کروٹیں بدل رہی ہو تو دوران املا ان کی کیفیت کیا نہ ہوتی ہوگی؟ چنانچہ ہوتا یہ کہ شفقت اور پیار بھرے ایک دو جملے لکھواتے ہی وہ مائیں یکایک ڈانٹتے ڈپٹتے جملے لکھوانے لگتیں اور میں حیرت سے انہیں دیکھ کر پوچھتا:"کیا سچ مچ لکھ دوں؟ "وہ گھورتے ہوئے فرماتیں :"عین اسی طرح لکھ ڈالو جیسا کہا جا رہا ہے"امتحان تو میاں کو لکھوائے گئے جوان بیویوں کے خطوط ہوا کرتے۔ جس کے لئے وہ گھر کے کسی ایسے گوشے کا انتخاب کرتیں جہاں ان کے ساس سسر ان کا املا نہ سن سکیں۔ ان کے الفاظ بہت محتاط ہوا کرتے کہ املا بہرحال ایک غیر کو کروایا جا رہا ہوتا مگر یہ محتاط لفظ فراقی کرب بھرے جس لہجے میں وہ ادا کرتیں اسے سمیٹے رکھنے سے وہ عاجز ہوا کرتیں کہ اشک اور فراقی کرب ضبط کئے رکھنے میں عورت ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ لوگ اس کی مختلف وجوہ بیاں کیا کرتے ہیں مگر میرے نزدیک اس کا سبب فقط یہ ہے کہ جب "محسوسات" اپنی پوری شدت پر پہنچ کر مجسم ہوجائیں تو عورت وجود میں آجاتی ہے۔ اس کا پورا وجود ایک احساس ہے اور احساس کہاں ضبط ہوتا ہے! خدا علیم ہے کہ فراقی کرب سے لبریز ان کے محتاط پشتو الفاظ کو اردو میں ڈھالتے ہوئے پتہ نہیں کتنی بار میں خود بھی اپنے اشک ضبط نہیں کرپایا۔ وہ کتنی بھی محتاط ہو لیتیں میں تھا تو فارسی و عربی ادبیات اور علم معانی کا طالب علم۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اردو ادب کا چسکا بھی اپنے جوبن پر تھا۔ سو ایسے میں ان کے محتاط لفظ "الکنای و ابلغ من التصریح" (کنایہ تصریح سے بلیغ تر ہے) کی صداقت بن کر مجھ پر اپنے معانی عیاں کر دیتے۔ سب سے بے مزہ خطوط مرد حضرات کے ہوتے۔ پہلے نمبر پر ان کے خطوط میں معاملات اور روپے پیسے کا ذکر ہوتا، دوسرے نمبر پر مویشیوں کا تذکرہ آتا۔ مثلا یہ جملہ تو لگ بھگ ہر دوسرے خط میں ہوتا۔"گائے کا دودھ سوکھ چکا، بکری کا دودھ بھی اب اتنا ہی رہ گیا ہے جو اس کے میمنے کے لئے ہی کافی ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں چائے بغیر دودھ والی پینی پڑ رہی ہے، اب یہ گائے بیچنی پڑے گی اور دودھ دینے والی گائے خریدنی ہوگی جس کے لئے مزید روپے درکار ہیں، تم درکار رقم جلد از جلد بھیجو"دلچسپ بات یہ کہ ہر مردانہ خط شروع گلے شکوؤں سے ہوتا جس کے ابتدائی الفاظ لگ بھگ یوں ہوتے:"تم جب سے گئے ہو نہ تو کسی کی زبانی اپنی خیر خیریت بھیجی اور نہ ہی کوئی خط لکھا، لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ تم ٹھیک بھی ہو یا نہیں؟ "یہی شکوہ جب خواتین لکھواتیں تو وہ ایک خانہ زاد اصطلاح استعمال کرتیں۔"نہ دی دوا گوتی خط را اولیگو"اب اس کا لطف تو کوئی پشتو جاننے والا ہی لے سکتا ہے۔ مفہوم اس جملے کا یہ ہے کہ نہ ہی تم سے کوئی دو سطری خط بھیجا گیا، مگر اس جملے میں دو سطروں کے لئے دو جڑی ہوئی انگلیوں کا استعارہ جس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے اس کی بلاغت اور روانی بے مثال ہے۔ استعاروں، کنایوں اور محاوروں کے معاملے جو زباں جتنی دیہی گہرائی رکھتی ہے اتنے ہی اس کے یہ جواہرات فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے چمکدار ہوتے ہیں اور ان کے خالق بھی ادیب نہیں دیہی سماج کے عام لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف شہری زبانوں کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے استعارے، کنائے اور محاورے ادیبوں کے مرہون منت ہوتے ہیں، اور ان کا استعمال بھی ادبی ذوق رکھنے والے افراد تک ہی محدود ہوتا ہے۔ دیہی زباں کی قوت و استقامت کا راز ہی یہ ہے کہ اس کی تراکیب ادیب کی نوک قلم سے نہیں دیہاتی کے بانکپن سے جنم لیتی ہیں۔"نہیں ! یہ آپ نے غلط لکھ دیا، اسے کاٹ کر دوبارہ لکھئے"میرے سماعت سے مجذوب کی یہ چلاتی آواز ٹکرائی تو آن واحد میں خیالوں کی دنیا سے لوٹ آیا اور دیکھا تو نائی کی کرسی پر براجماں پروفیسر انیس زیدی اکیسویں صدی کے انیسویں سال میں مجذوب کا املا کرایا جا رہا خط لکھ رہے تھے۔ یوں لگا جیسے گزرے زمانوں کی مکتوب نگاری کا کوئی کٹا ہوا منظر ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا وٹس ایپ دور میں آگرا ہو!