یہ اکتوبر 1996ء کی ایک شام تھی جب میں نے عصر کی نماز طورخم بارڈر کی پاکستانی جانب ادا کی اور سرحد عبور کر گیا۔ ہم تین ہمسفر تھے مگر طورخم پر ایک دوسرے سے لاتعلق۔ سرحد کی دوسری جانب تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مخصوص دکان کے مقابل پاکستان کی جانب رخ کئے ایک گاڑی ہماری منتظر تھی۔ ہم دس دس منٹ کے وقفے سے اس گاڑی میں جا بیٹھے تو وہ جلال آباد روانہ ہوگئی۔ مغرب کی نماز ہم نے جلال آباد میں ادا کی اور جب اندھیرا پوری طرح چھا گیا تو سیاہ شیشوں والی ایک گاڑی میں ہمارا وہ سفر شروع ہوا جس کی منزل سے میں آگاہ نہ تھا۔ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی رکی اور ہم اس سے اترے تو ایک بڑی فصیل کے وسیع گیٹ کے سامنے تھے۔ بہت باریک بینی سے ہماری تلاشی لی گئی اور پھر فرشی نشست والے ایک مہمان خانے میں پہنچا دیا گیا۔ ہم نشست سنبھال کر پانی وغیرہ پی چکے تو کمرے کا دروازہ کھلا اور آگے پیچھے دو شخصیات داخل ہوئیں۔
شیخ اسامہ بن لادن آگے جبکہ شیخ ابوالحفص ان کے پیچھے تھے۔ دونوں کے چہرے پر گہرا تبسم تھا اور وہ گرم جوشی سے ملے۔ اسلام آباد واپس آکر میں نے اوپر تلے دو کالم لکھے۔ پہلے کالم کا عنوان تھا "اسامہ بن زید سے اسامہ بن لادن تک" جبکہ دوسرا کالم "اسامہ بن لادن نے کہا" تھا۔ تین دن بعد ہمارے ایڈیٹر نے مجھے ایک لیٹر دکھایا جو امریکی سفارتخانے سے میرے دونوں کالموں کے ردعمل میں لکھا گیا تھا۔ اس لیٹر میں کہا گیا تھا کہ بہتر تو یہ ہوگا کہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کو سپورٹ فراہم کرنے والے اس کالم نگار کو ادارے میں جگہ ہی نہ دی جائے لیکن اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس کے اس طرح کے کالم شائع نہ کئے جائیں۔ میں شکر گزار ہوں ایڈیٹر صاحب کا کہ انہوں نے نہ تو مجھے اخبار سے نکالا اور نہ ہی مجھ پر کوئی قدغن لگائی۔ بات اسامہ بن لادن کو سپورٹ فراہم کرنے کی نہ تھے، بلکہ امریکہ اور اسامہ بن لادن کے قضیے میں ان کاموقف قارئین تک پہنچانا تھا۔ اخبار نویس کے قلم میں بارود نہیں روشنائی استعمال ہوتی ہے مگر آزادی اظہار کے عالمی چیمپئن بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ آزادی یکطرفہ استعمال ہو۔
23 برس قبل کی اس ملاقات کے لئے میں اسلام آباد سے روانہ ہوا تھا تو روانگی سے واپسی تک پورے سفر میں کامل رازداری برتی گئی تھی۔ اس بقر عید کے اختتام پر مجھے ایک بار پھر افغان بارڈر کی طرف رخ کرنا تھا۔ ایک بار پھر ایک ایسا سفر درپیش تھا جس کی رازداری لازم تھی۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا، دیواروں اور ٹیبلوں پر 23 کلینڈر بدل چکے تھے، اور زمانہ سوشل میڈیا کا آچکا تھا۔ چنانچہ رازداری کی تیکنیک بھی نئی درکار تھی۔ 90 کی دہائی میں "چھپن چھپائی" کارآمد ثابت ہوئی تھی تو اس بار اس کے عین برعکس راہ چنی گئی۔ سفر اپنے تین بھائیوں کی ہمراہی میں اختیار کیا گیا اور روانہ ہوتے ہی "تفریحی سفر" کی تصویری پوسٹ بھی فیس بک پر ڈالدی۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوران سفر بھی باتصویر پوسٹیں جاری رکھی گئیں۔ اس بار رخ طورخم بارڈر کی بجائے چمن بارڈر کی طرف تھا، سو بلوچستان کے اس بائی روڈ سفر کے دوران ہر اہم لمحے اور مقام کی تصویری روداد مزاح کے مختصر اسلوب میں بیان کرتا گیا۔ ہم کس وقت کہاں ہیں، یہ ہر لمحہ خود میں ہی سوشل میڈیا پر بتاتا گیا۔ اس تفریحی ہلے گلے کے دوران چھپانا تو مجھے بس وہ ایک لمحہ تھا جسے چھپانے کا ڈھنگ بچپن کی شرارتوں میں ہی سیکھ چکا تھا۔ 18 اگست کی سہہ پہر کوجک ٹاپ پر پہنچے تو دور کھڑے افغان پہاڑ اور ان کے دھندلے درے نظروں کے سامنے تھے۔ چمن کی جانب اترائی کا سفر شروع ہوا تو اطراف کے پہاڑوں پر دور قریب وہ بہت سے بنکر نظروں کے سامنے آتے گئے، جو برطانوی راج کے دوران 1880ء میں تعمیر ہوئے تھے اور جن میں بیٹھ کر برطانوی سپاہ نے ہندوستان پر اپنے ناجائز قبضے کی "حفاظت" کی تھی۔ برٹش ہندوستان کی حفاظت پر قانع ہونا ان کی مجبوری تھی، ورنہ انہوں نے اس قبضے کا دائرہ کابل کے اس پار دریائے آمو تک پھیلانے کی 80 سال تک سرتوڑ کوششیں کیں مگر ان کی دال تو نہ گلی، ہاں ! افغانوں نے ان کے دانت ضرور کھٹے کردئے۔ اور نتیجتاً انہیں کوجک ٹاپ کے ان مورچوں میں بیٹھ کر اداس شامیں گننی پڑیں۔ یہی برٹش آرمی نائن الیون کے بعد امریکہ کی قیادت میں 44 ممالک کی افواج کے ہمراہ ایک بار پھر افغانستان پہنچی تو شاید پرانی حسرتیں زندہ تھیں۔ ایک صدی قبل یہ جس قندھار اور ہلمند کے بہت قریب آکر بھی قبضہ برقرار نہ رکھ پائے تھے، اس بار بھی اپنے لئے وہی قندھار اور ہلمند چنے۔ مگر پچھلی بار انہیں مکمل شکست میں 80 سال لگے تھے جبکہ اس بار یہ صرف 14 سال میں رسوا ہوکر نکل لئے۔ کوئٹہ سے ہلمند تک کی پوری بیلٹ ایم آئی سکس کی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے اور اسی بیلٹ میں اس ایجنسی کو وہ ہزیمت اٹھانی پڑی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کو بائی پاس کرکے کسی "فرینڈلی طالبان کمانڈر" سے خفیہ بات چیت کرتے رہے، اور معاملات طے پائے تو کئی ملین پاؤنڈ کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔ مگر بہت جلد انکشاف ہوا کہ جسے ایم آئی سکس طالبان کمانڈر سمجھتی رہی، وہ کوئٹہ کے ان دکانداروں میں سے ایک تھا جن کا بھولا پن ظاہر کرنے کے لئے یہ روایت بیان ہوتی ہے کہ یہ پندرہ ہزار کا قالین پندرہ سو میں بیچ جاتے ہیں۔ اس بار قالین کا سودہ ذرا مختلف ہوا تھا۔ اس بار پندرہ سو کا قالین 12 ملین پاؤنڈ میں فروخت کیا گیا تھا اور ستم ظریفی یہ کہ گاہک کو قالین بھی دیا نہیں گیا۔ امریکہ ہو خواہ برطانیہ، یہ احساس دونوں کو اچھی طرح ہوگیا ہے کہ دکاندار تو شاید افغانستان میں کہیں روپوش ہے مگر قالین پاکستان میں ہی کہیں پڑا ہے۔ چنانچہ اس بار وہ قالین کے حصول کی تمام کوششیں پاکستان کی مدد سے کر رہے ہیں۔ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے کبھی انہوں نے ٹی ٹی پی کا سہارا لیا تھا، جس کا بوریا بستر پاکستان سمیٹ چکا۔ اب یہی کام منظور پشتین کی پی ٹی ایم سے لیا جا رہا ہے۔
دوحہ مذاکرات کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ عید سے عین قبل خبر گرم ہوئی کہ 14 اگست کے آس پاس معاہدے پر دستخط ہونے جا رہے ہیں، عید گزر گئی مگر دستخط نظروں سے نہیں گزرے۔ پھر معاہدے کے نکات کے حوالے سے بھی متضاد باتیں سننے کو مل رہی تھیں۔ منظور پشتینیوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان امریکہ کے فوجی اڈوں کا قیام پندرہ برس کے لئے قبول کرچکے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے جاری ہونے والا طالبان کا حالیہ بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتاہوا ثبوت ہے، کہنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ بیان درحقیقت پاکستان کو دیا گیا ایک برا پیغام ہے۔ اور کچھ حلقے "ذرائع" کی آڑ میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ طالبان کی جانب سے اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات کی شرط بھی مان لی گئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سے اس کے بالکل برعکس کہا جا رہا ہے۔ اس مبہم صورتحال میں اخبار نویسوں کا بیان کردہ سچ اور حقیقت بھی "ذرائع" کا محتاج نظر آرہا تھا۔ چنانچہ لازم ہوگیا تھا کہ کسی ٹاپ لیول طالبان کمانڈر یا رہنماء سے روبرو ہوکر صورتحال کو سمجھا جائے۔ اور میں کوجک ٹاپ کے اس پار اپنی اسی پیشہ وارانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کی غرض سے اتر رہا تھا۔ میں سچ کی تلاش میں تھا ! ! !