Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Taasub Ka Zeher

    Taasub Ka Zeher

    پچھلے کالم "پنجابی سامراج" پر بعض پختونوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں ایک ایسے حضرت بھی شامل رہے جن کا جبہ، رومال، ٹوپی اور مجھ سے دگنی داڑھی کسی فرشتے کا گمان پیدا کرتی ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ڈھائی سال پختونوں، اس کے بعد کے 22 سال مہاجروں اور اس کے بعد کے 25 سال پنجابیوں کے ساتھ گزارے ہیں۔ میرے والد کا ہم پر یہ احسان اپنی جگہ کہ ہمیں کراچی میں مستقل بسایا لیکن معمولی یہ احسان بھی نہیں کہ ہمیں کراچی کے پختون علاقوں میں نہیں بلکہ مہاجر علاقے میں بسایا۔ آپ پنجابی کے تعصب کی بات کرتے ہیں میں تو مہاجر کو بھی متعصب نہیں مانتا۔ کراچی میں ہمارا خاندانی مرکز آج بھی اس عثمانیہ سوسائٹی میں ہے جس کے پہلو میں بدنام زمانہ "کھجی گراؤنڈ" واقع ہے۔ ہم ان پختون فیملیوں میں سے بھی نہیں جنہوں نے اپنی پشتو اردو کے چرنوں میں قربان کردی۔ ہم بھائیوں کی باہمی زبان 40 سال قبل بھی پشتو تھی، آج بھی پشتو ہے۔ اہلِ علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی ثقافت سے دستبرداری کی ابتدا زبان سے دستبردار ہونے کی صورت ہوتی ہے۔ آپ صرف اپنی مادری زبان چھوڑتے ہیں، روایات خود بخود چھوٹ جاتی ہیں۔ ہم کراچی کے بدترین دور میں بھی اپنی پشتو اور پختون روایات سمیت یوپی اور دہلی سے آنے والوں کے بیچوں بیچ رہتے آ رہے ہیں۔ اگر مہاجر متعصب ہیں تو ہمیں کس خوشی میں بخشے رکھا؟ کیا ہم الطاف حسین کو بھتہ یا ڈونیشن دیتے تھے؟ بات سیدھی سی ہے کہ آپ کو لسانیت کا مسئلہ ہوتا ہے تو پھر لسانیت کے مسئلے آپ کو کاٹتے ہیں۔ ہمیں لسانیت کا مسئلہ نہیں تھا۔ ہم سے یہ اعلان تو لوگوں نے سنا کہ ہم پختون ہیں لیکن یہ تاثر کبھی اخذ نہیں کیا کہ ہم ان سے برتر قوم ہیں۔ لسانی تعصب بنیادی طور پر برتری کا ہی جھگڑا ہوتا ہے۔ پچھلے 25 سال میں پنجاب میں رہا ہوں اور یوں رہا ہوں جیسے پنجاب میرے باپ دادا نے مجھے ترکے میں دیا ہو۔ کسی ایک بھی پنجابی کی سوئی کبھی میری پختونیت پر آ کر نہیں رکی۔ کسی نے یہ بھی نہ کہا کہ یہ "غیر مقامی" ہے۔ جبکہ سندھ کی صورتحال یہ ہے کہ صدیوں قبل محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے عربوں کی اولاد کو آج بھی "غیر مقامی" پکارا جاتا ہے۔ انہیں ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کے لئے راجہ داہر کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرٹ کی وہاں دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ جو آپ کو سمجھتا ہی غیر مقامی ہے وہ آپ کو صحت، تعلیم اور روزگار میں حصہ دے سکتا ہے؟ پنجابی چونکہ مجھے غیر مقامی نہیں سمجھتے تھے، سو نتیجہ یہ ہے کہ میرے دونوں بیٹوں کو میرٹ پر سکولوں میں داخلہ ملا اور میرٹ پر ہی گورنمنٹ کے بہترین کالجز میں گئے، نہ مجھے کسی کی منتیں کرنی پڑیں، نہ اپنی صحافت کا دھونس جمانا پڑا اور نہ ہی کسی وزیر سے سفارش کرانی پڑی۔ میں نے پچھلے 25 سال میں یہ سیکھ لیا ہے کہ تعصبات میں پنجابی پاکستان کی سب سے آخری قوم ہے۔ متعصب وہ ہوتا ہے جو اپنے پڑوسی سے نہ نبھا سکے جبکہ پنجابیوں کی وسعت ظرفی کا تو یہ عالم ہے کہ یہ بیرونی حملہ آوروں کو بھی دل و جان سے قبول کرتے آ رہے ہیں اور یہی میری پنجابی سے سب سے بڑی شکایت بھی ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، سلاطینِ دہلی، افغان حکمران، انگریز اور پھر امریکہ تک ہر ایک کو یا تو انہوں نے فزیکلی یا فکری طور پر قبول کیا۔ ایک ہزار سے لے کر 10 ہزار کلومیٹر دور سے آنے والوں کے لئے بھی یہ دیدہ و دل فرشِ راہ کر لیتے ہیں، کیا یہ متعصب قوم کی علامت ہے؟ آپ تاریخ بھی چھوڑ دیجئے صرف پچھلے دس سال کا ہی حال دیکھ لیجئے۔ بلوچستان میں بارہا درجن درجن لوگوں کو صرف پنجابی ہونے کے جرم میں قتل کرکے ان کے اجتماعی تابوت پنجاب بھیجے گئے لیکن پنجابیوں نے لسانی رد عمل نہیں دیا۔ احتجاج تک نہیں کیا، اگر کیا تو صرف شکوہ کیا۔ آپ کہتے ہیں پنجابی سرکاری عہدوں اور فوج میں زیادہ ہیں۔ ذرا انصاف سے بتایئے کیا یہی شکایت خیبر پختون خوا میں ہندکو بولنے والوں کو پختونوں سے نہیں؟ سندھ میں مہاجر کو سندھی سے نہیں؟ کیا بلوچستان کی بھی یہی صورتحال نہیں؟ جن کی آبادی زیادہ ہو ان کا زیادہ نظر آنا ان کا جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ سب سے اہم بات یہ کہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتایئے، کیا پنجابی پاکستان کی سب سے پڑھاکو قوم نہیں؟ کیا اس گلے سڑے نظام تعلیم میں بھی ان کا معیار تعلیم دوسرے صوبوں سے بہتر نہیں؟ اگر وہ پڑھیں گے زیادہ تو پھر پڑھی لکھی پوسٹوں پر تو زیادہ نظر آئیں گے۔ میں اس وقت کراچی میں موجود ہوں جو اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ پختون آبادی والا شہر ہے۔ یہاں پختونوں کے شعور کا یہ عالم ہے کہ چار پختونوں نے مل کر ایک عام سے محلے میں 4 کروڑ کا پلاٹ خریدا ہے جس پر وہ چار مکان تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ میں سے جو مجھے چیلنج کرنا چاہے وہ میرے ساتھ اس محلے میں جا کر صرف 10 منٹ گزار لے اور اس جگہ ابلنے والے گٹر ہی نہیں بلکہ وہاں استعمال ہونے والی زبان بھی دیکھ لے تو آپ کو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ان چاروں سے بدقسمت کوئی نہیں ہو سکتا کہ اللہ نے وسائل بھی دیئے اور پھر بھی وہ اپنے بچوں کو اس قدر غلیظ ماحول میں رکھنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ اب یہ چار بھی چائے خانوں میں بیٹھ کر یہ تبصرہ کریں کہ "پنجابی کھا گیا" تو کیا یہ بات قبول کی جا سکتی ہے؟ آپ کو بڑا عہدہ چاہئے تو بڑے ماحول میں رہئے اور بڑی تعلیم حاصل کیجئے۔ آپ تعلیم میں پیچھے رہیں گے تو یقین مانئے آپ کا پختون سیٹھ بھی اپنے کاروبار کے لئے منیجر آپ کو نہیں بلکہ اس پنجابی کو رکھے گا جس نے تعلیم اچھی حاصل کر رکھی ہے۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ جو وقت آپ کو اپنے استعمال میں لانا چاہئے، وہ آپ ولی خانوں یا منظور پشتینوں کو ڈونیٹ کردیتے ہیں۔ نہ ولی خان آپ کے مرحومین کو تباہی کے سوا کچھ دے سکا اور نہ ہی منظور پشتین کی آستین میں آپ کے لئے سانپوں کے سوا کچھ ہے۔ دنیا میں مانگ قابلیت کی ہے۔ قابل گلگت جیسے دور دراز علاقے اور مشکل زبان کا بھی ہو تو عزت، روزگار سب کچھ پاتا ہے۔ اور نکما پنجابی ہی کیوں نہ ہو خوار رہتا ہے۔ تعصب دیتا دلاتا کچھ نہیں، بس سماج سے کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ آپ یقین جانئے میں اپنی جوان پختون اولاد کو یہ نصیحت بار بار کرچکا ہوں اور وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں کہ نیشنلسٹ پختونوں سے دور رہنا ورنہ ان کے دلوں میں بھرا تعصب کا زہر آپ کو بھی ہلاک کردے گا !