یہ انہی راتوں میں سے ایک رات تھی جس کے رت جگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پشتون شاعر نے کہا تھا، صحرا کی وہ رات بہت عجیب تھی، وہ تو بس عبادت کے لائق تھی۔ ہم اب اس رات کے اس پار تھے۔ اجلے دن کی روشنی میں "سواری" چلتی چلی گئی تھی مگر اندازہ نہ ہوپایا تھا کہ کتنی دیر چلے؟ یہ کچھ اس طرح کے لمحے تھے جب کبھی تو وقت رک رک کر چلتا ہے اور کبھی وہ چل چل کر رکتا ہے۔ کبھی گھنٹوں پر لمحوں کا گمان ہوتا ہے اور کبھی گھنٹے لمحوں میں سکڑتے نظر آتے ہیں۔ سمت بھی ایک پہیلی تھی۔ اجنبی مقام پر ہم جیسے تو قبلہ رخ بھی پوچھنے کے محتاج ہوتے ہیں۔ جبکہ وہاں شمال جنوب سے ہم آغوش تھا۔ اور یکسانیت کا کرشمہ کہ مغرب مشرق کا جڑواں بھائی لگ رہا تھا۔ سو کچھ خبر نہیں، کس سمت گئے، اور کتنی دیر چلے۔ ہم تو بس یوں چلے جیسے کوئی منچلے کہ کبھی ادھر چلے تو کبھی ادھر چلے، پر کہاں چلے؟ کچھ پتا نہ چلے ! ایک ہم ہی کیا، اگست کا وسطی عشرہ بھی چل رہا تھا۔ کتنا عجیب ہے اگست کا یہ وسطی عشرہ جس کی 14 اگست پاکستان کا یوم آزادی، 15 اگست جنرل حمید گل کا یوم وفات، 17 اگست جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن کا یوم شہادت اور 19 اگست افغانستان کا یوم آزادی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طالبان کی میڈیا پالیسی نہایت قابل غور ہے. وہ پریس کانفرنسز نہیں کرتے. انٹرویوز نہیں دیتے. اپنی تصاویر شائع کروانے کے چکر میں نہیں پڑتے. اخبار نویسوں کو افغانستان کے دورے نہیں کراتے. اگر نچلی سطح کا کوئی کمانڈر ایسا کرلے تو مواخذے کا سامنا کرتا ہے. بالخصوص پاکستان کے ان "افغان امور کے ماہرین" سے تو حد درجے الرجک ہیں، جن میں سے کوئی تو سابقہ پاکستانی عسکری تنظیموں کے "ریٹائرڈ" قائدین سے سنی من گھڑت کہانیوں کو تڑکہ لگا کر پیش کرتا ہے. کوئی کابلی پروپیگنڈے کو اردو میں کنورٹ کرکے اپنا مال ڈسپلے کرتا ہے. کوئی کسی پرانے پاکستانی جہادی کا گھنٹوں طویل کئے گئے انٹرویو میں مرچ مسالہ ڈال کر افغان امور پر صاحب کتاب ہوا ہے. اور کسی نے افغانستان میں طالبان مخالفین سے سٹوریاں جمع کرکے کتاب رقم کی ہے. ان کتابوں میں ہر چیز مل جاتی ہے، اگر نہیں ملتے تو بس حقائق نہیں ملتے. نائن الیون کے فوری بعد کے دو چار سالوں میں جب اسلام آباد میں واقع مغربی سفارتخانوں نے اس طرح کی کتابوں کے لئے فنڈنگ شروع کی تو بہت سوں نے افغان امور کا ماہر بننے کے لئے افغانستان کا رخ کیا. مگر جب ان میں سے ایک سینیئر سیٹزن افغان طالبان کے ہتھے چڑھا اور انہوں نے قندھار کے قریب بھرے چوک میں مرغا بنا کر چھترول کی تو افغان امور کے تمام پاکستانی ماہرین ایک دوسرے کو نصیحت ہی نہیں بلکہ وصیت بھی فرمانے لگے کہ"کابل اور جلال آباد سے باہر مت نکلنا"
یوں صرف اشرف غنی ہی نہیں، یہ ماہرین بھی افغانستان جائیں تو کابل و جلال آباد تک محدود رہتے ہیں. افغان امور کے ایسے ہی ایک بڑے ماہر وہ اینکر بھی ہیں جو اسلام آباد کی سرد شاموں میں نجی محافل میں خود کو فخریہ طور پر "کرزئی کا بندہ" بتاتے رہے ہیں. اگر آپ کرزئی کے اس بندے کے وہ ٹی وی پروگرامز سوشل میڈیا سے نکال کر دیکھیں جو ان دنوں آن ایئر ہوئے جب بھارت میں "ہارٹ آف ایشیا کانفرنس" ہوئی تھی اور اشرف غنی پاکستان کے خلاف اور بھارت کے حق میں بولے تھے تو آپ کو دو چیزیں واضح نظر آئیں گی. ایک یہ کہ وہ افغانستان اور اشرف غنی کے بجائے پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے. اور دوسری یہ کہ وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ پاکستان کو اشرف غنی کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے. یہی موصوف اپنے پروگراموں میں اس بات پر بھی زور دیتے رہے ہیں کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی اس لئے سرپرستی کرتی ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی سرپرستی کرتا ہے. اور تماشا دیکھئے کہ یہی موصوف ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو اپنے ہی پروگراموں میں "ایک" بھی قرار دیتے رہے ہیں. 2016ء کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوچکی. آج ہم 2019ء میں کھڑے ہیں. ذرا ایک نظر کابل سے لے کر دوحہ تک اور دوحہ سے لے کر ماسکو تک کے منظر نامے پر ڈالئے اور خود طے کیجئے کہ آج کی تاریخ میں اس اشرف غنی کی کیا حیثیت ہے جسے خود امریکہ بھی چھوڑ کر جانے کی تیاری کر رہا ہے؟ اور جو طالبان سے بات چیت کی خیرات مانگ رہا ہے۔ یہ منظرنامہ ہی واضح کرنے کو کافی ہے کہ افغان امور کے یہ ماہر درحقیقت ان امور کی کسقدر مہارت رکھتے ہیں. کیا یہ محض اتفاق ہے کہ افغان امور کے یہ نام نہاد ماہرین منظور پشتین اور اس کی پی ٹی ایم کے بھی حمایتی ہیں۔ ان کی شناخت ہی یہ ہے کہ یہ اشرف غنی اور منظور پشتین کے حامی جبکہ پاکستانی اداروں اور افغان طالبان کے مخالف ہیں۔ یہ اس پورے خطے کی صورتحال میں ان کی وہ سٹریٹجک پوزیشن ہے جس کے ڈانڈے کابل سے واشنگٹن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جو ٹاسک سرحدی گاندھی اور ان کے حمایتی پرانے سرخے پورا نہ کرسکے وہی آج منظور پشتین اور ان کے حامی دیسی لبرلز کے سپرد ہے۔ اس پورے پس منظر میں جب میں نے کسی ٹاپ لیول طالبان کمانڈر یا ذمہ دار سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو جواب سوال کی صورت آیا. پوچھا گیا"سنا ہے، آپ بھی افغان امور کے ماہر ہیں؟"کانوں کو ہاتھ لگا کر جواب بھجوایا "اگر میں افغان امور کا ماہر ہوتا تو کابل یا جلال آباد سے باہر آنے کی خواہش ظاہر کرتا؟ اور میں ماہر ہوتا تو آپ سے ملنے کی خواہش کیوں کرتا؟ یہ مہارتیں تو ہمارے ہاں ٹھنڈے ڈرائنگ رومز میں بہ آسانی بھگاری جاسکتی ہیں"
میرا پاکستانی صحافی ہونا سوالیہ نشان بنا تو 80 کی دہائی میں لڑے گئے افغان جہاد کا حوالہ پیش کردیا. یہ حوالہ کام آیا تو طے پایا کہ کوئی انٹرویو نہیں ہوگا. کوئی تصویر کشی نہ ہوگی. یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اگر آپ نے کچھ لکھنا یا ٹی وی پر کہنا چاہا تو ہمارے نام بھی ظاہر نہیں کریں گے، اور اپنی لکھی بات بھی یہ کہہ کر ہم سے منسوب نہیں کریں گے کہ "طالبان نے کہا" جب ہم طالبان کچھ کہتے ہیں تو اپنی ویب سائٹ پر کہتے ہیں یا وہ بیان جاری کرتے ہیں جس کا ہر لفظ خود ہم نے سوچ سمجھ کر لکھا ہوتا ہے. "طالبان نے کہا" صرف وہی ہوتا ہے جو یا ہمارے قلم سے نکلا ہو اور یا ہماری زبان سے. مجھے یہ شرط سن کر فورا ملا برادر کا وہ حالیہ انٹرویو یاد آگیا جو طالبان کے اپنے شعبہ نشریات کے رکن نے کیا ہے. اور جو دوحہ مذاکرات کے حوالے سے ہوا ہے۔ مجھے نہ تو افغان امور کا ماہر بننے کا شوق تھا اور نہ ہی کسی "تاریخی انٹرویو"کا، میں تو بس موجودہ صورتحال کو کسی "ذرائع" کے واسطے کے بغیر براہ راست طالبان سے سمجھنا چاہتا تھا تاکہ آنے والے اہم ترین دنوں کی خبروں کا تجزیہ کرنے میں ٹھوکر نہ لگے. تمام شرائط قبول کرتے ہوئے یقین دہانی کرادی کہ صرف گپ شپ کرکے لوٹ جاؤں گا اور یہ ہرگز نہ لکھوں گا کہ طالبان نے کہا، سو اگلے کالم میں سب کچھ ہوگا، بس یہ نہ ہوگا کہ "طالبان نے کہا"