Tareef Khalis Na Tanqeed Khalis
Riayatullah Farooqui107
نواز لیگ کی حکومت اپنی مدت مکمل کرکے جا چکی اور ملک پر اس نگراں حکومت کی عملداری ہے جس نے انتخابات کرا کر اقتدار ان کے سپرد کرنا ہے جنہیں اس بار چنا جائے گا۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ چنے گا کون؟ عوام یا کوئی اور؟ ۔ ہر چند کہ نگراں وزیر اعظم کا بیان آیا ہے کہ "انتخابات صاف و شفاف" ہوں گے مگر جس نے کسی مستور ایمپائر کے اشارے پر عمران خان کا مچایا چار سالہ ہنگامہ اور پھر بالخصوص پچھلے ایک ڈیڑھ سال کی وہ سرگرمیاں دیکھ رکھی ہوں جنہیں پراسرار بھی نہیں کہا جاسکتا، وہ کیسے یقین کرلے کہ انتخابات صاف و شفاف ہی ہوں گے۔ جو کچھ اس عرصے کے دوران ہوتا رہا یہ پری پول ریگنگ نہ تھی تو کیا تھی؟ اگر زبردستی کا حسن ظن بھی اختیار کرلیا جائے اور مان لیا جائے کہ جو پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں ہوا وہ انصاف اور قانون کی ہی عملداری تھی تو اس نگراں حکومت کے ہوتے انتخابات کے صاف و شفاف انعقاد کا یقین کیسے کر لیا جائے جس کا وزیر داخلہ عمران خان کی ایک فون کال پر صرف 26 منٹ میں زلفی بخاری نامی ملزم کا نام ای سی ایل سے نکال دیتا ہے اور کہیں سے کوئی سوموٹو بھی نہیں لیاجاتا؟ جب نگران وزیر داخلہ لیا ہی عمران خان فاؤنڈیشن سے گیا ہو تو عمران خان کے احکامات پر عمل کیوں نہ کرے گا؟ کون نہیں جانتا کہ انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کے بعد سب سے اہم کردار وزارت داخلہ کا ہوتا ہے۔ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور پولیس اسی وزارت کے تحت تو ہیں جو انتخابی میدان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سو اگر پوری نگراں حکومت تحریک انصاف کی نہیں بھی ہے تو وزارت داخلہ تو اس وقت پکی پکی تحریک انصاف کے پاس ہے اور نگراں وزیر داخلہ نے عمران خان کے حکم پر زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکال کر اس کا ناقابل تردید ثبوت بھی دیدیا ہے سو کیسے مان لیاجائے کہ انتخابات "صاف و شفاف" ہونگے؟ ابھی چند ہفتے ہی تو ہوئے ہیں جب عدالت گاہوں میں دوہری شہریت والے سینیٹرز کی پکڑ دھکڑ کا شور تھا اور اب یہ حال ہے کہ "صاف و شفاف" انتخابات کے لئے لائے گئے نگرانوں میں ہی دوہری شہریت والے وزیر موجود ہیں اور اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ پھر بھی اگر اصرار ہے کہ انتخابات کے صاف و شفاف انعقاد کا یقین رکھا جائے تو اس کا جواب زہر آلود نگاہ نہیں تو ایک خاص قسم کے تبسم والی نگاہ سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ نگراں وزیر داخلہ اعظم خان نے عمران خان کے حکم پر زلفی بخاری نامی ملزم کا نام ای سی ایل سے کیسے نکالا؟ اور کس قانون کے تحت نکالا؟ بلکہ یہ بھی ہے کہ نامراد ہی سہی مگر حسرت تو عمران خان کی وزیر اعظم بننے کی ہی ہے۔ کیا ایسا شخص وزیر اعظم بننے کی اہلیت رکھتا ہے جو پابندی کے باوجود ملزم کو بیرون ملک لے جاتا ہو؟ عمران خان کے حوالے سے ملک کے سنجیدہ حلقوں کی مسلسل یہی رائے تو رہی ہے کہ یہ وزارت عظمیٰ کے لئے درکار بنیادی صلاحیتوں سے ہی عاری ہیں، جبکہ یہ متعدد کاموں میں پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں کہ ان کی نظر میں آئین و قانون کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ اوپر سے قوت فیصلہ ایسی کمزور کہ جب بھی فیصلہ کرتے ہیں یوٹرن ضرور لیتے ہیں۔ مثلا تازہ معاملہ ان کے ٹکٹ ہولڈرز کا ہی دیکھ لیجئے! موصوف سیاست نوجوانوں کے نام پر کرتے رہے اور ٹکٹ جاری کردئے انہیں جن کی ٹانگیں قبروں میں لٹکی ہوئی ہیں۔ دعوی ہوتا رہا نظریے کا اور ٹکٹ جاری ہوگئے لوٹوں کی فوج ظفر موج کو۔ نتیجہ یہ کہ چار سال تک دھرنوں اور جلسوں میں ناچ ناچ کر جن کے گھٹنوں اور ٹخنوں کے جوڑ گھس گئے وہ بغاوت پر اتر آئے۔ بے رحمی کی انتہاء دیکھئے کہ جو چار سال تک ان کے ڈانس کے ہر سٹیپ پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب تمہارے ڈانس میں بہائے ہوئے پسینے کے ہر قطرے کا انعام تمہیں انتخابی ٹکٹ کی صورت عطاء ہوگا، وہ اب کچھ اور کہنے لگے ہیں۔ یہ بچارے ہرحرف مسطور کا یقین کرتے گئے اور جب وقت آیا توجن پر تکیہ تھا وہی یہ کہہ کر ہوا دینے لگے کہ مخلص کارکنوں کی جگہ الیکٹ ایبلز نام کے لوٹوں کو ٹکٹ دے کر عمران خان نے زبردست کمال کردیا ہے۔ بخدا بتا نہیں سکتا کہ یہ دیکھ کر اپنے سرور کا کیا عالم ہے کہ عمران خان کے جس فیصلے کی پانچ دن تک یہ تعریفیں کرتے رہے اس فیصلے سے بھی عمران خان نے یوٹرن لے لیا۔ سوال انتخابات کے صاف و شفاف ہونے کا ہے اور حالت یہ ہے کہ ایمپائر گزیدہ جماعت کے ٹکٹ ہی صاف و شفاف نہیں۔ عالمی ادارے ہوں خواہ ملکی، سب نون لیگ کی مقبولیت اور جیت کی پیشنگوئی کر رہے ہیں۔ وہی نون لیگ جس کا بھرکس نکالنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی نون لیگ نے ہی جیتنا ہے تو یہ ڈگڈگی والوں کے لئے اچھی خبر تو نہ ہوئی۔ شاید اسی لئے عمران خان کی تعریفوں کے قلابے ملانے والوں نے یک زبان ہوکر اچانک ان پر تنقید شروع کردی ہے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ عمران خان کو غیبی قوتوں کی مدد حاصل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تاثر کے زائل ہونے سے نواز شریف کی مقبولیت کم یا عمران خان کی بڑھ سکتی ہے مگر ایسا ہوگا نہیں، کیونکہ ان سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ عمران خان کے تمام میڈیائی مداحوں نے ان پر تنقید کے لئے اکٹھے ہی قبلہ بدل لیا جس سے لوگ سمجھ گئے کہ جن کے کہنے پر عمران خان کی تعریف کر رہے تھے انہی کے کہنے پر اب تنقید کر رہے ہیں۔ لھذا جس طرح وہ تعریف خالص نہ تھی اسی طرح یہ تنقید بھی خالص نہیں۔ جن کی تعریف خالص نہ تنقید خالص وہ تاثر زائل تو نہیں کرسکتے مضبوط ضرور کر سکتے ہیں !