بھارت 1974ء میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا مگر مئی 1998ء میں ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے بعد بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع ہو گیا۔ اگرچہ پاکستان اس وقت تک ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا، لیکن اس کا واضع طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت منوانے کا یہ سنہری موقع ضائع نہیں ہونے دیا اور 28 مئی کو چاغی میں 5 دھماکے کر کے بھارتی سیاست دانوں کا منہ بند کر دیا۔
ہمارے ایٹمی دھماکوں سے قبل ایک طرف بھارت دھمکیوں اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کی ایٹمی تجربہ گاہوں پر حملے کی تیاری کر رہا تھا تو دو سری جانب مغربی ممالک پابندیوں کا ڈراوا دیکر پاکستان کو ایٹمی تجربے سے باز رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس موقع پر مجید نظامی نے 22 مئی 1998ء میں اپنے اداریہ میں لکھا کہ "پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے"۔ نیوز ویک نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو اس کی صلاحیت مشکوک سمجھی جائے گی مگر دوسروں کا بھی یہی خیال نظر آتا ہے۔ ممکن ہے وہ یہ لکھ کر دھماکہ کروانا چاہتے ہوں۔ پھر انہی دنوں ایک خبر منظر عام پر آئی۔ اس خبر کی سرخی یہ تھی کہ پاکستان نے دھماکہ کرنے کیلئے ایٹم بم زیرزمین پہنچا دیئے۔ دھماکہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ تیار کئے گئے بنکروں میں کنکریٹ ڈالی جارہی ہے۔ پھر 28 مئی کو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کاجواب پاکستان نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے دیا۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ " اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے ایٹمی ملک بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت ایک سو سے زائد ایٹمی وارہیڈزرکھتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدید عالمی دباؤ کے باوجود تیزی سے جاری ہے اور پاکستان ہرسال اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں دس نئے ایٹم بموں کا اضافہ کرلیتا ہے۔
بھارت امریکہ ایٹمی معاہدے کے بعد پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا گیا ہے۔ ملک میں چین کے تعاون سے ایٹمی بجلی گھربھی بنائے جا رہے ہیں جبکہ خوشاب کے قریب پلوٹینیم تیارکرنیوالے دو نئے ایٹمی ری ایکٹرزبھی مکمل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جن پر اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو بھارت پاکستان کو ہضم کر چکا ہوتا۔ قارئین کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سری لنکا ہو یا بنگلہ دیش، نیپال ہو یا بھوٹان حتیٰ کہ مالدیپ ان سب کو بھارت نے ایٹمی قوت بن کر اپنی طفیلی ریاستیں اس حد تک بنا رکھا ہے کہ بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک پاکستان اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے کا اعلان کرکے بھارتی آنکھ کے اشارے پر یہ اعلان واپس لے لیتا ہے۔ جب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی بموں کی تعداد اور کوالٹی میں بھارت پر برتری اور پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنادیا ہے اور اس حد تک محفوظ بنادیا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرسکے گا۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیئے تو پاکستان پر امریکہ نے پابندی لگا دی کیونکہ پاکستان نے مسلم ملک ہو کر اتنی ہمت کیسے کی کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کر لی۔ پاکستان کے دشمنوں کے ہاں اس دن صف ماتم بچھی ہوئی تھی، دوسری طرف مسلم ممالک خوشیوں سے نہال تھے۔ سعودی عرب کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر پاکستان کو فوری طور پر 50 ہزار بیرل تیل مفت اور مسلسل دینے کا اعلان کر دیا۔ یہی حال دیگر مسلم ممالک کا تھا۔ ایٹم بم بنانے میں بھی مسلم ممالک نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع دن سے ہی عالمی سازشوں اور شدید تنقید کا شکار ہے۔ پاکستانی کی ایٹمی طاقت کئی عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے بعد باقاعدہ مخالفانہ مہم چلائی جاتی ہے۔ حکومت اور پوری قوم کا فرض ہے کہ ملکی سلامتی کی علامت اس ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور یہی یوم تکبیر کا پیغام ہے اب جبکہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی اور میزائل ٹیکنالوجی سے مالامال ہے اس کے باوجود ہندوستان آج پھر بلوچستان، خیبرپختونخواہ، پنجاب اور سندھ سمیت جہاں بھی موقع ملتا ہے اپنے پالتو ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کرواتا رہتا ہے جس میں آئے دن پاکستانی افواج کے جوان شہید ہوتے ہیں۔ اتنی شہادتیں 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں نہیں ہوئیں جتنی شہادتیں ردالفساد کے آپریشن کے دوران پاکستان میں ہوئیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم 28 مئی 1998ء کو دھماکے نہ کرتے تو ہمارا آج کیا حال ہوتا؟ پاکستان دہشتگری اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد میں ہمہ تن کوشاں ہے جس پر پاکستانی عوام کو فخر ہے۔ پاکستان قدرت کا انمول تحفہ ہے اور اسی مناسبت سے یوم تکبیر ہمارے لیے یوم آزادی جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہمارے لئے ملک کی ترقی و استحکام کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عہد کی تجدید کا بھی دن ہے۔