اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے منتخب ایوان نے حال ہی میں ارکان اسمبلی کا ترمیمی استحقاق بل منظور کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی کا حالیہ اقدام اس قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر مطابقت نہیں رکھتا۔
ہر باشعور شہری چاہتا ہے کہ ریاست کے تینوں ستون، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں کیونکہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے بدنظمی پیدا ہوتی ہے۔ آئین میں پارلیمان کی بالادستی جمہوریت کی بنیاد ہے اور منتخب قومی نمائندے نہایت قابل احترام ہیں۔ انہیں ایوان کے اندر اور باہر عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کا حق حاصل ہے۔
پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ارکان کے استحقاق کا حق پہلے ہی موجود ہے ایسے بل کی منظوری کی قانونی وجہ نظر نہیں آتی۔ آئین اور جمہوری اصولوں کے مطابق جو بھی بل اسمبلی میں پیش کیا جائے تو اس کے بارے میں رائے عامہ معلوم کرنے کیلئے اسکی دو تین ماہ خوب تشہیر ہونی چاہیے تاکہ عوام اس کے بارے میں اپنی رائے اور جذبات و احساسات کا کھل کراظہار کر سکیں۔ حال ہی میں جو مسودہ منظور کیا گیا ہے، گورنر نے اس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اسمبلی کو واپس کر دیا تھا اس کے باوجود یہ بل نہایت خاموشی سے منظور کر لیاگیا ہے۔
اسمبلی پنجاب کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور پنجاب کے عوام، انتظامیہ کے ارکان اور ابلاغ عامہ کے نمائندوں کو کسی بھی قانونی مسودے یا اس کی منظوری پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔ ارکان اسمبلی کے استحقاق کا جو بل منظور کیا گیا ہے اس کے بارے میں محکمہ قانون کو بھی کانوں کان خبر نہ مل سکی۔ چہ جائیکہ پنجاب کے بارہ کروڑ عوام کو کھل کر اس پر اظہار رائے کر سکتے۔
دنیا میں کسی بھی جمہوری حکومت میں اس قسم کی قانون سازی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ باشعور لوگ اور ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد اس بل کی منظوری پر نہ صرف حیران ہیں۔ عوام کو اپنے نمائندوں کے بارے میں رائے دینے، تنقید کرنے اور سوال اٹھانے کا حق حاصل ہے جس کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔
راقم الحروف تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے محترم ارکان اسمبلی سے یہ گزارش کرنا جائز سمجھتا ہے کہ کسی بحث کے بغیر یہ بل انہوں نے متفقہ طورپر کیسے منظور کر لیا؟ اس مسودہ قانون کی پارلیمانی روایات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہ ہی محکمہ قانون سے اس بارے میں کوئی رائے لی گئی۔ 23 جون کو ایوان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا لیکن یہ بل زیر بحث نہیں لایا گیا۔
اس بل کے مطابق ارکان اسمبلی کے پہلے سے موجودتحفظ استحقاق کے قانون میں مزید ترمیم کی گئی ہے۔ جس کے مطابق اب کوئی سرکاری افسر، بیوروکریٹ یا صحافی اسمبلی میں تلخ کلامی کرے گا تو اسے تین ماہ تک سزا اور 10 ہزار روپیہ جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح اس اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل ہونگے ا ور اس کے آرٹیکل 11-A کے تحت ارکان کے استحقاق کی خلاف ورزی قابل سزا ہوگی۔ بل کے تحت جوڈیشل کمیٹی بنائی جائے گی جس کے پاس 6 ماہ قید کی سزا اور دس ہزار روپے جرمانہ کرنے تک کے اختیارات ہوں گے۔ جوڈیشل کمیٹی کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات بھی ہوں گے اور وہ خود ہی سزا و جزا کا فیصلہ کرے گی۔ اس بل کے تحت اگر کسی رکن اسمبلی کے استحقاق کو مجروح کیا گیا تو سپیکر اسمبلی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایوان میں ایم پی اے کی کسی تقریر میں رد وبدل کیا گیا ہو اور وہ رکن سپیکر سے صحافی کی شکایت کرے تو یہ بھی قابل گرفت سمجھا جائے گا۔ سرکاری محکموں کے افسران اگر اسمبلی بلانے پر نہ آئیں تو وہ بھی قابل گرفت ہوں گے۔ اگر کسی محکمے کی طرف سے غلط جواب اسمبلی بھیجا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ بل کے تحت سپیکر اور استحقاق کمیٹی کو دیئے گئے اختیارات آئین کے آرٹیکل 10-A سے متصادم ہیں لہذا آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت بل کا از سر نو جائزہ لینا ضروری ہے۔
پنجاب اسمبلی کے معزز ارکان اور محترم سپیکر نے انتظامیہ اور عدلیہ کے اختیارات بھی حاصل کر لئے ہیں۔ ہمارے آئین میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں، یہ مسودہ قانون اس سے متصادم ہے۔ پنجاب کے تمام پڑھے لکھے اور باشعور لوگ چودھری پرویز الہیٰ کے خاندان، چودھری ظہور الہی مرحوم کے طرز عمل کے ہمیشہ نہایت معترف رہے ہیں۔ تحریک پاکستان میں چودھری ظہور الہیٰ مرحوم اور ان کے بڑے بھائی چودھری منظور الہیٰ مرحوم نے سرگرمی سے حصہ لیا۔ وطن عزیز میں جمہوریت کی بحالی کیلئے چودھری برادران اور ان کے خاندان نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور لوگ برملا کہتے ہیں کہ چودھری برادران کی سیاست سے استفادہ اور سبق سیکھا جائے۔ وہ نہایت معتدل مزاج رکھتے ہیں اور عوام سے ہمیشہ بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں۔ راقم کو خود چودھری برادران اور ان کے بزرگوں چودھری منظور الہیٰ مرحوم اور چودھری ظہور الہٰی مرحوم سے بار ہا ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور راقم نے انہیں ہمیشہ دوسروں کے نقطہ نظر کو اہمیت دیتے اور ان کی بات احترام کے ساتھ سنتے پایا۔ پنجاب میں چودھری شجاعت حسین صاحب اور چودھری پرویز الہیٰ صاحب اور ان کے آباو اجداد کی روایات بلا شبہ باعث تقلید رہی ہیں۔
میں چودھری پرویز الہیٰ صاحب اور ارکان اسمبلی سے مؤدبانہ درخواست کروں گا کہ وہ اپنی خاندانی اور جمہوری روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس ترمیمی بل کو قانونی شکل دینے سے اجتناب کریں۔ اس طرح پنجاب کے عوام کی نظر میں ان کے وقار اور عزت میں مزید اضافہ ہو گا۔ راقم الحروف نے ہمیشہ انہیں جمہوری روایات، عزت و احترام اور رواداری کا علمبردار ہی پایا ہے۔ میں صوبے کے جمہوریت پسند لوگوں سے بھی گزارش کروں گا کہ وہ اس معاملے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں لے جائیں تاکہ عدلیہ اس بل کا جائزہ لے کر قانونی اور آئینی حکم صادر کرے۔ عدلیہ سے رجوع کرنا اس متنازعہ قانون کیلئے موزوں اور مناسب اقدام ہوگا۔