فلاحی اور مہذب معاشرے کا تقاضا ہے کہ معاشی طور پر کمزور اور مستحق افراد کا ہاتھ تھاما جائے۔ وسائل سے محروم لیکن باصلاحیت افرادکی آواز بن کر اور غم کا احساس کرتے ہوئے ان کو بھی ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ آگے بڑھیں اور غربت کے اس گراف کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسی سے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہیں ہموار ہوں گی۔
انسانی فلاح و بہبود میں جہاں سرکار کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ بھی کارفرما ہے وہیں ہمارا انفرادی فرض بھی بنتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کا بھرپور خیال رکھیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس بابرکت مہینے میں ثواب سمیٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ حقوق العباد کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی رمضان المبارک کورونا کی شدید لہر میں آرہا ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کی ویکسین بھی میسر ہے۔ مخیر حضرات جہاں رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں وہاں اس مرتبہ غریب اور نادار افراد کو کورونا ویکسین قیمتاً لے کر لگو ا دیں۔ اس سے وطن عزیز کے غریب لوگوں کو ویکسین لگ جائے گی اور ان کی زندگی بچ جائے جو کہ ایک بہت ہی ثواب کا کام ہے۔
ہمارے ہاں حکومتی اداروں کے علاوہ بہت سے ایسے ادارے بھی ہیں جوانسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ کئی فاؤنڈیشن نے ملک کے طول و عرض میں ایمبولینسز، لیبارٹریز، ڈسپنسریز، ہیلتھ سینٹرز، زچہ و بچہ سینٹرز اور ہاسپٹالز کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔ اس وقت ملک کے شہری علاقوں اور دوردراز کے پسماندہ علاقوں میں عوام الناس کو صحت کی سہولیات بہم پہنچانے کے لیے الخدمت ہیلتھ فاؤنڈیشن کے تحت 44 ہسپتال، 66میڈیکل سینٹر، 116لیبارٹریز اور 3کلیکشن سینٹر، 44 فارمیسیز، 286 ایمبولینسز خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ پاکستان میں تھر کا صحرا غربت و افلاس، بھوک اور پیاس کا استعارہ سمجھا جاتا ہے جسے گزشتہ برسوں کے دوران قحط کے آسیب نے اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ یہاں کے باسی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم ہیں۔ مٹھی تھرپارکر میں جدید طرز کے ہسپتال کا قیام مقامی افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
حالیہ کورونا بحران میں سرکاری شعبے کے ساتھ ساتھ نجی شعبے نے بھی شاندار خدمات سرانجام دی ہیں۔ ملک بھر میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف میں ذاتی حفاظتی کِٹس کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نجی شعبے کو کورونا ویکسین در آمدکی اجازت ملنے کے بعد امید ہے کہ تمام پاکستانیوں کو اس کی فراہمی یقینی ہوجائے گی۔ حکومت نے نجی اداروں کو کورونا ویکسین دررآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ نجی ہسپتال اور ادارے اپنے مالی مفاد کیلئے قیمتاً ویکسین فراہم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نجی اداروں کو ویکسین فراہمی میں فوقیت دی جائے جو محض انسانی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھ کر کام کر رہے ہیں۔ اپنا مالی مفاد ان کا مطمع نظر نہیں۔ مذکورہ ادارے نے تمام جدید سہولیات سے آراستہ اپنے 10ہسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے وقف کردیئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ لاہور میں نہایت ارزاں قیمت پر معیاری کورونا ٹیسٹنگ کا بھی باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔ انہی خدمات پر صدر مملکت جناب عارف علوی نے پرائڈ آف پاکستا ن ایوارڈ اور گورنر پنجاب نے انہیں ٹیلنٹ ایوارڈ سے نوازا ہے۔
گو کہ پاکستان کی معاشی حالت مستحکم نہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اس ملک پر کوئی مشکل پڑی اہل پاکستان نے دل کھول کر اپنے بھائیوں کی مدد کی خواہ دو ہزار پانچ کا زلزلہ ہو یا دو ہزار دس کا سیلاب، پاکستانی ہمیشہ جذبہ خدمت سے سرشار رہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ آٹھ سو ارب کے عطیات دیے جاتے ہیں۔
اس وقت پاکستان میں بیالیس لاکھ یتیم بچے ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں۔ کچھ فاؤنڈیشنز نے غریب، یتیم بے آسرا بچوں کی کفالت کیلئے سکول، ہسپتال اور دیگر ادارے کھول رکھے ہیں جو بلارنگ، نسل و مذہب کے امتیاز عوام کی خدمت میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ناہنجار اولاد بوڑھے والدین کو بوجھ سمجھنے لگتی ہے۔ والدین کی دیکھ بھال ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ لہذا اولڈ ہوم کے نام سے بعض ادارے ایسے ہیں جہاں بوڑھے والدین کو گھر جیسا ماحول دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ آغوش بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جہاں اس وقت چودہ ہزار کے قریب یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام ہے۔ سترہ ایکڑ پر مشتمل اس وسیع و عریض رقبے کی کل مالیت بیس کروڑ روپے ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کے اس رقبے کے مالک نوے سال کی ضعیف العمر بابا جی شیخ افضل صاحب ہیں جنہوں نے اپنی یہ انتہائی قیمتی جائیداد نہ صرف ان یتیم بچوں کے لئے وقف کی بلکہ اللہ کا یہ نیک بندہ خود بھی ان بچوں کے ساتھ آغوش میں رہائش پذیر ہے۔
معاشرے اور قوم کی تعمیر میں بنیادی کردار تعلیم کا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جو بچے تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں وہ وسائل کی کمی کے باعث آگے نہیں پڑھ پاتے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی نجی اداروں کا قابل ذکر کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ نجی شعبے نے ملک اورقوم کے اس اہم مسئلے کو اپنی ترجیح میں رکھا، اور تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ادارہ نے اسکول نہ جانے والے بچوں کے لیے ملک بھر میں 31 چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بنا رکھے ہیں جہاں معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے بچوں کے لیے جن کے والدین تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں، 52 تعلیمی ادارے قائم کیے۔ ملکی نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اخراجات نہ ہونے کے باعث اپنی تعلیم کا سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ ایسے مستحق نوجوانوں کے اخراجات خود اٹھانے کا فیصلہ کیا اور3872 ذہین اور قابل نوجوانوں کو الفلاح اسکالرشپ کے تحت تعلیمی معاونت دی۔
پاکستانی نوجوان رسمی تعلیم تو مکمل کرلیتے ہیں لیکن پیشہ ورانہ تعلیم نہ ہونے کے باعث انہیں عملی میدان میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہیروں کو تراشنے کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن نے 70 سے زائد اسکلز ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کررکھے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ان کی خدمات سے 40 ہزار کے قریب طلبہ اور طالبات مستفید ہوچکے۔