قلم کاروان کی ہفت روزہ ادبی نشست میں "قومی زبان؛ہماری آن"کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے شہزاد منیرعالم نے کہا کہ اردوکے نفاذکے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ ہماری قومی زبان اردو ہے جو کہ پورے پاکستان میں لکھی، پڑھی اور بولی جاتی ہے اس کے علاوہ تقریباً 70 زبانیں پاکستان میں بولی جاتی ہیں مگر ان تمام کی طرز اور الفاظ بڑی حد تک اردو سے ہی مماثلت رکھتے ہیں۔
انگریزی راج سے قبل ہندوستان کی شرح خواندگی سو فیصدکو چھورہی تھی۔ دنیاکی پیداوارکا ستائیس فیصد ہندوستان میں اگتا تھا جس کے باعث اس خطہ ارضی کو سونے کی چڑیاکہا جاتا تھا۔ انگریز نے لوٹ مارکی اور ریلوے لائین بچھاکریہاں کی دولت برق رفتاری سے اپنے ملک میں منتقل کرکے یہاں غربت مسلط کردی اور انگریزی زبان کو رائج کرکے یہاں تعلیم کے نام پر جہالت کو رواج دیا۔ برصغیر میں انگریز نے ریل کی پٹڑی اپنی افواج کی رسدکے لیے بچھائی اور ہر موقع پر مسلمانوں کے کندھے پر بندوق رکھ کرمسلمانوں کو شکارکیا۔
مسلمان صرف مسلمان کی حیثیت سے دنیا میں برسراقتدار نہیں آئیں گے بلکہ انہیں اپنی مالی و سماجی خرابیاں دورکرنی ہوں گی اور قرآن مجیدکے معیار مطلوب پر پورا اترنا ہوگا تب اقتدارعالم کی دیوی مسلمانوں پر مہربان ہوگی۔ دور غلامی میں 1849ء میں انگریز نے معاشی ضرورت کے تحت پنجاب میں اردو کو دفتری زبان قرار دیا تھا اور 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت ریڈیو پاکستان سے قیام پاکستان کا اعلان بھی اردو میں ہی نشر کیا گیا تھا تاکہ ہم انگریز و ہندو کو باور کرا سکیں کہ ہم آزاد ہیں اب اپنی تہذیب و تمدن پر اپنی مرضی سے عمل پیرا ہو سکتے ہیں اور ہماری نسلیں اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت و مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہونگی۔
24 مارچ 1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے ڈھاکہ میں واشگاف الفاظ میں فرمایا تھاکہ: "پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی"۔ حالانکہ قائد اعظم معاشی ضرورت کے تحت انگریز کے سامنے انگریزی بولتے تھے مگر جب وہ اپنے ہم وطنوں سے ہمکلام ہوتے تو اردو ہی بولتے تھے بطور دلیل ان کی کئی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ اب بھی موجود ہیں۔ 1973ء کا آئین بنا اور 1988 تک پندرہ سال کیلئے نفاذ اردو کی مدت مقررکی گئی، لیکن اس وقت سے آج 2021ء تک، 33 سال کی طویل مدت گزرنے کے باوجود نہ ہی حکومت اس مسئلے میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور نہ ہی عدلیہ۔ بلکہ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ خود ان اداروں میں اردو کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ تقریر ہو یا تحریر، یوں محسوس ہوتا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر چارہ کار نہیں۔
زندہ قوموں کی پہچان ان کی تہذیب و ثقافت سے ہوتی ہے اور ہم دنیا کی نویں بڑی زبان اردو ہونے کے باوجود انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں حتی انسانی حقوق کا رونا رونے والی این جی اوز ہمارے لوگوں کو انگریزی میں ہدایات دے کر چلی جاتی ہیں اور وہ غریب ان پڑھ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ آخر انہیں کہا کیا گیا ہے۔ پورے پاکستان میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں اپنی مادری زبانیں بولتے ہیں اور وہ تمام مادری زبانیں اردو سے کافی مماثلت رکھتی ہیں اس لئے جب کسی سے اردو میں بات کرتے ہیں تو وہ بندہ کافی حد تک اردو کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور بڑی حد تک اردو بول بھی لیتا ہے۔
ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اردو زبان کے دامن میں کس چیز کی کمی ہے یہ علما کا اظہار بیاں، صوفیا کا ذریعہ ابلاغ اور صحافیوں کی آلہ کار ہے۔ شعراء و اْدباء کا سرمایہ حیات ہے۔ مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہوچکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے۔
پاکستان کے ہمسایہ ممالک ترکی، ایران اور چین میں بھی اردو کی تعلیم جامعات میں دی جاتی ہے۔ سعودی عرب، خلیج کی ریاستوں اور یورپی ممالک برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس اور کینیڈا میں لاکھوں افراد کی زبان اردو ہے اور وہاں اس میں کتابیں، روزنامے اور رسالے بھی چھپ رہے ہیں۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق انگریزی اور چینی دو بڑی زبانیں ہیں، جبکہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اقوام متحدہ کی ہر رپورٹ کا ترجمہ اس میں شائع ہوتا ہے۔ یہ تو کسی طرح سے بھی کمتر نہیں ہے۔ اردو ادب کے عظیم سپوتوں غالب، اقبال اور فیض شناشی پر پاکستان کے علاوہ بھارت، ایران، ترکی، اٹلی، فرانس، چین، جاپان، امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب اور دیگر کئی چھوٹے بڑے ممالک میں کام ہو رہا ہے۔
ہم سیاسی مسئلوں پر ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بھی لگاتے ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کو گرفتار اور سخت سے سخت سزا دینے کا پر زور مطالبہ بھی کرتے ہیں مگر یہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں شق نمبر 251 میں درج ہے۔
"پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور تاریخ اجرا سے پندرہ سال کے عرصے کے اندر سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے اس کے استعمال کا انتظام کیا جائے گا۔"آئین کی اس کھلی خلاف ورزی پر ہمارے سیاسی رہنما کیوں خاموش ہیں؟ اور وہ لوگ کیوں خاموش ہیں جو اس ملک کے نظام طے کرنے سے متعلق صبح و شام قائد اعظمؒ کے فرمودات کے حوالے دیتے ہیں؟