آج کل ہمارے دن بڑے اچھے گزررہے ہیں بلکہ دن عید اور رات شب برات کا سا سلسلہ ہے کہ دن کا آغازاخباروں سے ہوتاہے جن میں چند خوبصورت اور مبارک چہرے دیکھ کر ہم پورے دن کے لیے ہشاش بشاش ہوجاتے ہیں گویا
ازیے دیدن رخت ہم چوصبا فتادہ ایم
خانہ بہ خانہ دربہ در کوچہ کوچہ کوبہ کو
ان میں ایک چہرہ جوہماری خوش قسمتی ہے کبھی کہیں سے بھی ہٹتا نہیں اتنا قوت بخش اور ملٹی وٹامن ہے کہ ہم دھنیے ہوجاتے ہیں لیکن اس کانام ہم مارے ادب اورعقیدت کے لے نہیں سکتے البتہ نشانیاں بتاسکتے ہیں سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ؎
ہرسودکھائی دیتاہے وہ جلوہ ہرمجھے
آنکھیں اور کچھ نہیں آتا نظرمجھے
ایک اور چہرہ جو چہروں کا چہرہ یعنی جس میں سارے چہرے جلوہ گرہوتے ہیں جدہر دیکھ لوں ادھر تو ہی توہے ہاتھی کے پاؤں بلکہ سونڈ میں سب کی سونڈ۔ یا
سب کچھ خداسے مانگ لیا تجھ کومانگ کر
اٹھتے نہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
حضرت مولانا کوثرنیازی کو خدا کروٹ کروٹ وہ جگہ نصیب کرے جس کے لیے وہ"ڈیزور"کرتے ہیں انھوں نے قائدعوام فخرایشیا رازق روٹی کپڑا مکان سے عقیدت کا اظہاریوں کیا تھا"وہ سوچ رہے ہم ستارے ہیں "جس پرکسی منفی تنقید والے نے ایک فضول سی پبھتی کسی تھی کہ"وہ دیگ ہے ہم اس کے چمچمے ہیں "اسی طرح اس چہرہ نما پربھی ہم کہہ سکتے ہیں خوشحال خان خٹک کے الفاظ میں
میں ہرچہرے میں وہی چہرہ دیکھتا ہوں جو زیادہ پیدائی اور جلوہ گری سے ناپید ہوگیا ہے۔ اور ہم کہناچاہتے ہیں کہ
گرنظر بتو افتدم چہرہ بہ چہرہ روبرو
شرح دہم غم تورا نکتہ بہ نکتہ موبہ مو
اس کے بعد وہ چہرہ ہمارے لیے روح افزا حیات افزا اور خوش افزا ہے جو چہروں میں یکتا بے مثل لاثانی اور منفرد جو دونوں اطراف سے مخروطی اور بیچ میں دور دور تک پھیلا ہوا ہے ہوبہو خاص لوگوں کے مرکز یعنی شکم کی طرح چاروں بلکہ شش جہات میں پھیلا ہوا اور پھولا ہوا اور بڑا ہوا۔ اس سے یہ قول زریں برآمد ہوکر چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا ہے کہ عوام نوکریوں یا روزگار کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں اور اس قول زریں سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کے بعد یہ اقوال زریں بھی برآمد ہونے والے ہیں کہ عوام صحت تعلیم اور جان ومال کی حفاظت کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔
یہ ذکر بالکل ادھورا ہوگا اگرہم پھولوں کی سرزمین سوات کے اس پھول سے چہرے کا ذکرنہ کریں جسے بجا طور پر گل سرسبد کہاجانا چاہیے اور جس سے ہروقت پھول جھڑتے رہتے ہیں۔ ایسے پھول جو اس کے ماضی اور بچپن لڑکپن کی تمام خوشبوئیں لیے ہوئے ہوتے ہیں اور ہمیں اچھی طرح اس کی کیاری سے پتہ چلتاہے کہ جب یہ پھول تازہ تازہ کھلا تھا تو اس کی خوشبوئیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی تھیں۔
گلشن میں گل کھلتے ہیں
جب صحرا میں ملتے ہیں اور تو
بات تھوڑی نکتے کی ہے کہ صحرا میں "من وتو"کے ملنے سے پھول گلشن میں کیسے کھلتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہرنکتہ ہرکسی کی سمجھ میں آئے
ادائے خاص سے غالب ہواہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
بہرحال یہ جس پھول یا گل سرسبد چہرے کاہم ذکر کررہے ہیں جو "سوات گلونہ"میں سے ایک ہے اس کے ساتھ ہمیں ایک گونہ زیادہ عقیدت ہے کہ نہ صرف اس کا تعلق سوات جیسی گلشن سرزمین سے ہے بلکہ سب سے زیادہ پھول بھی اسی کی ٹہنیوں سے جھڑتے ہیں اور اس کی شاخیں یا شاخہیائے گل اتنی دور دورتک پھیلی ہوئی ہیں کہ اسے گلشن سے باہر دوسروں کے آنگنوں میں گل باری کردیتی ہے۔
اتفاق سے جن دوسرے چہروں سے عقیدت کا اظہار کرنا ہمیں مقصود ہے ان کا تعلق بھی سوات کے گلشن سے ہے۔ اور ان میں بھی وہی خوبیاں ہیں جو پہلے والے گل چہرہ میں ہیں یعنی اپنے چمن سے شاخیں پھیلا کر دور دور تک کے آنگنوں میں گل باری کرنا۔ یہ صوبائی سربراہ اور وزیراطلاعات کے خوبصورت چہرے جب بھی کسی بیان کی زینت ہوتے ہیں اس کا تعلق صوبے کے معاملات سے کم اور قومی یا بین الاقوامی معاملات سے زیادہ ہوتاہے۔ لیکن ہمیں بیانوں سے کیا۔ ہمیں تو چہروں کے دیدار اور اس کی برکت سے سارا دن خوشگوار کرنے سے کام ہے اور بطریقہ احسن بلکہ کچھ اور بھی اچھے طریقے پرہورہاہے کیونکہ ان چہروں سے جھڑنے والے پھول بہت ہی جان فزا ہوتے ہیں
دردہان تنگ تو عارض وعنبریں خط
غنچہ بہ غنچہ گل بہ گل لالہ بی لالہ بوبہ بو
یہ توہم نے چند خاص الخاص چہروں کا ذکرکیا جن سے ہمارا سامنا شام جان، صبح وشام معطر اور تروتازہ رہتاہے ورنہ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ ایک سے بڑھ ایک گلترہے جو اپنی خوشبو سے صدگلستان نگاہ کا سامان کیے ہوئے اور سازچمن طرازی داماں کیے ہوئے ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہ وہ گلستان ہے جس میں کوئی غنچہ بن کھلے نہیں ہے اور سارے پھول ہی بہار افزا دکھلاتے نظرآتے ہیں بقول قرۃ العین طاہرہ
دردل خویش طاہرہ گشت وندید چیزتورا
صحفہ بہ صحفہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ توبہ تو