جس طرح خوشی اور غم"بھائی بہن"بتائے جاتے ہیں اور اکثر لوگ آرزو کرتے ہیں کہ خوشی کا یہ بھائی اگر بچپن میں ہی مرجاتا تو کتنا اچھا ہوتا اور اگر پیدا ہی نہ ہوتا تو اور بھی اچھا ہوتا اور اگر اب اس کورونا یا کوئڈ نائنٹین کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچے تو پھر بھی اچھا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ اگر چوہوں کی چڑیوں کی اور کبوتروں کی دعائیں قبول ہوتیں تو بلیوں کا نام ونشان ہی نہ ہوتا۔ بہرحال "خوشی اور غم"کی طرح"سونا"اور " سوچنا" بھی جڑواں بتائے جاتے ہیں۔
اکثر لوگ سوتے ہیں پھر سوچتے ہیں سوچتے ہیں اور سوتے ہیں کہ درمیان میں صرف۔ کا فرق ہے سوچنے کی(چ) ہٹاکر کسی بھی وقت سونا شروع ہوسکتاہے بلکہ پروفیسر ڈاکٹر چشم گل عرف کوئڈ نائنٹین کا قول ہے کہ انسان زندگی میں یہی دو ہی کام تو کرتا ہے۔
دن کو سوچنا اور رات کو سونا۔ بلکہ دن کو برُا برُا سوچنا اور رات کو اچھا اچھا سونا۔ اب ہمیں دیکھیے ایک عرصے سے سوچ رہے ہیں کہ "انسان"کے لیے کوئی اچھا سا نام سوچیں کیونکہ اب تک اس نے جتنے بھی نام خود اپنے اوپر رکھے ہوئے ہیں وہ سب کے سب یا تو آدھے ادھورے ہیں اور یا شاعروں کے تخلص کی طرح صرف ایک کمپلکس اور اُلٹے ہیں یعنی برعکس ہند نام زنگی کافور۔ یا۔ زاغ کی چونچ میں انگور۔ یعنی جو اس کے اندر نہیں ہے وہ نام یا تخلص کے ذریعے اپنے اندر ڈالنا۔ اس لیے اس کا کوئی ایسا نام بھی ہونا چاہیے جو اس کی تاریخ، اس کے جغرافیے، حدود اربعہ، اور وجہ تسمیہ کے عین مطابق ہو۔
آخرکار کافی عرصہ سوچنے اور سونے کی ادلابدلی کے بعدایک بہت ہی اچھا اور اس کے حسب حال اور ہر جہت سے عین مطابق ہے اور وہ نام ہے"ڈرُو" یعنی ڈرنے اور ڈرتے رہنے والا۔ جس طرح تاڑنے والے کو"تاڑُو"پھینکنے والے کو پھینکوُ اور پاپی کو پپوُ کہتے ہیں ڈرو بروزن پپو۔ کیونکہ ہم نے جب تاریخ جغرافیے اور ہمہ اقسام کے مقامات پر تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو اسے ہر لحاظ اور ہر جہت سے "ڈرُو" ہی پایااس کا بہت کچھ بدل جاتا ہے لیکن "ڈر" ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ موت سے ڈر تو اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے اس کے بعد یہ کہیں بھی ہوکیسا بھی ہو کچھ بھی کر رہاہو، کون ہو کیا ہو، کہاں ہو جہاں جہاں ہوتا ہے "ڈر"اس کے ساتھ لگارہتاہے ؎
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل زیست میں ہر گام پہ رونا آیا
درندوں، چرندوں، پرندوں، خزندوں بلکہ تمام زندوں سے تو چھوڑیے کہ مردوں سے بھی ڈرتا ہے یہاں تک کہ نادیدوں یعنی کرونوں اور کوئڈوں سے بھی ہر وقت تھر تھر کانپتا رہتاہے حالانکہ اسے یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے سب کو مسخر کیاہواہے، اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں۔ اس جہاں میں کوئی ایک ایسا "زندہ"نہیں جو اس سے ڈرتا نہ ہو لیکن یہ خود بھی ڈرتا رہتاہے۔ کہتے ہیں کسی نے گیدڑ سے پوچھا کہ تم یہ رات بھر " او او"کیوں کرتے ہو۔ بولا، لوگوں کو ڈراتاہوں۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ پھر یہ کانپتے کیوں ہو۔
بولا خود بھی تو ڈرتا ہوں نا۔ گیدڑ کا تو پتہ نہیں کہ وہ کس سے ڈرتا ہے لیکن انسان کے بارے میں تویہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دوسرے تو دوسرے یہ سب سے زیادہ"اپنے آپ"سے ڈرتا ہے اور یہ "ڈر" بھی اس کا بالکل صحیح ہے کیونکہ اسے سب سے بڑا خطرہ اپنے آپ ہی سے ہے۔ اس سے اس کا ڈرتے رہنا برحق ہے اس سے زیادہ برحق ہونے کا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آخری فیصلہ اس کا یہ ہے کہ ایک دوسرے سے "قریب"بالکل نہ ہو ورنہ
لا تقربا ھذہ الشجرہ
اس مردار بوٹی سے کم ازکم چھ فٹ کے فاصلے پر رہو ورنہ
انی کنت من الکرونین۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں پتہ نہیں صحیح یا غلط لیکن سوچتے ہیں کہ کہیں ایک مرتبہ پھر تو تاریخ اپنے آپ کو دہرا نہیں رہی ہے، کہیں اس کی بنائی ہوئی اس دوسری جنت میں تو "کوئی"گھس نہیں آیا ہے؟ اس کا تکبر توڑنے کے لیے۔ بہرحال "ڈر" انسان کا وہ ساتھی ہے جو کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ چاہے یہ سورہاہو یاسوچ رہا ہو۔
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتاہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
ہم تفصیل میں تو نہیں جاسکیں گے کیونکہ ہم خود بھی تو"ڈر" کے سب سے بڑے شکار ہیں، علمبردار ہیں اور گرفتار ہیں لیکن کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ انسان نے یہ جو مقدسات بنائے ہیں یہ بھی صرف ڈر کے مارے بنائے ہیں، جتنے ہتھیار بنائے یا جتنا خون بہایاہے یہ سب کچھ اسی"ڈر"کا نتیجہ ہیں۔ انسان ڈرتاہے اس لیے دوسروں کو ڈراتاہے اس لیے دوسروں کو ڈراتاہے کہ خود بھی ڈرتاہے، مطلب کہ اس کا سب کیا کرایا صرف "ڈر" ہی کا نتیجہ ہے۔ مرشد نے بھی کہاہے کہ
اپنے پہ کررہاہوں قیاس اہل دہر کا
سمجھاہوں دل پزیر"متاع ہنر"کو میں
متاع ہنر کی جگہ "متاع ڈر" رکھ لیجیے سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔ اس وقت دنیا میں انسان جو کچھ بھی کررہاہے دوسروں کو مارنے کا سامان کررہاہے، طرح طرح کی چیزیں بنا بناکر بیچتا ہے، "تحفظ"کے نام پر ایک ہنگامہ مچارکھاہے یہ سب کچھ"ڈر"ہی کا شاخسانہ ہے
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشت غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں
آہوئے "صیاد دیدہ"چیونٹیوں کے بل پر رات گزارتاہے تو کس لیے۔ اس لیے کہ شکاری سے ڈرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج اگر انسان بھی چیونٹیوں کے "بل"پر سو رہاہے تو اسے اس شکاری کا ڈرہے جو اس کے پیدا ہوتے ہی اس کے پیچھے لگاہواہے۔ کسی فلم میں کسی کردار نے دوسرے کو ڈر کا فلسفہ سمجھاتے ہوئے کہاہے کہ ڈر کو پالو پوسو کہ ڈر بہت بڑی چیزہے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھو کہ یہی ڈر ہی تمہارا ہتھیار ہے۔ مثالیں دے کر ہم آپ کا وقت کیوں ضایع کریں، اپنے اردگرد دیکھیے خود اپنے اندر جھانکیے سوائے ڈر کے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
چنانچہ واقعات گواہوں کی دلائل سننے کے بعد "عدالت"اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان کا اگر کوئی حسب حال نام ہوسکتاہے تو وہ ہے "ڈرُو"۔ بروزن تاڑو یا پھینکو یا پپو۔