پچھلے کالم میں ہم نے گل خنان کے صرف ایک قول زریں کا ذکرکیا تھا۔ یعنی، کیوں بتاوں کہ تجھے ملیریا نہیں۔ لیکن ابھی دوسرے قول زریں کے بارے میں بتانا باقی ہے جو نمبر کے لحاظ سے پہلا ہے۔ لیکن اس سے بھی پہلے اس مسیحا کے بارے میں کچھ بتاؤں جو گل خنان کا باس تھا اور اس نے لوگوں میں "ملیریا" ڈھونڈنے بلکہ ڈالنے کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا۔ جب وہ "حج" پر جا رہا تھا تو یہ اس کی مجبوری تھی کیونکہ ان کے سارے ہم پیشہ مسیحاؤں نے اپنی دکانوں پر "ڈاکٹر حاجی" کے بورڈ لگوائے تھے۔ ایک اتفاقاً سرراہ ملاقات ہوئی اور ہم نے اپنی استطاعت کے پیش نظر پوچھ لیا۔
سنا ہے حج پر جا رہے ہو؟ بولا، ہاں اس پر ہم نے کہا حج پر توبہت بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ بولا، رقم کی کوئی بات نہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ ملیریا کا "سیزن" چھوٹ جائے گا۔ دراصل جنگلوں، پہاڑوں اور ویرانوں کے افغان مہاجرین اتنا روس سے نہیں ڈرتے تھے جتنا ملیریا سے ڈرتے تھے، اگر چلتے چلتے کسی کا جوتا بھی پھٹ جاتا تو وہ دوڑ کر کسی قریبی ڈاکٹر کے پاس "ملاریا" ٹیسٹ کے لیے پہنچ جاتا، جہاں گل خنان جیسے لوگ بیٹھے ہوتے اور وہ اسے "کیوں بتاتے" کہ تمہیں ملیریا نہیں۔ خیر یہ تو پرانے اقوال زریں کا قصہ تھا، نیا اور سب سے پہلا قول زریں ایک اور تھا۔
لیکن اس کے لیے تھوڑے سے پس منظر کی ضرورت ہے، گل خنان ون ٹریک آدمی تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ بچپن میں بھی اتنا لائق تھا جتنا اب (ستر سال کی عمر میں ) ہے اور یہ واقعی سچ تھا کیونکہ وہ اب بھی ویسا ہی تھا جیسا بچپن میں تھا اس کے چہرے پر ایک عدد معصومانہ سا منہ تھا اور اس منہ میں صرف چار دانت ایسے تھے جو دکھائی دیتے تھے، باقی کے دانت نہ کسی نے دیکھے تھے نہ کبھی سنے تھے، اور ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ سارا کام وہ ان ہی ہاتھی بلکہ دو ہاتھیوں کے دانتوں سے چلا لیتا تھا۔ کوئی ناپسندیدہ بات ہوتی تو ہونٹ سکڑ جاتے اور دکھائی دینے والے دانت ساڑھے تین ہو جاتے تھے۔
کوئی خوشی کی بات ہوتی تو دانت ساڑھے چار ہو جاتے تھے۔ ہم جب بھی اس سے ملتے اور بچپن کی باتیں کرتے تھے تو اس کے چہرے اور منہ میں اتنی ہی تبدیلی ہوتی کبھی ساڑھے تین اور کبھی ساڑھے چار۔ نہ اس کا کوئی حافظہ تھا، نہ ذوق، نہ شوق، نہ مشغلہ۔ بس یہی چار دانت ہی اس کا کل اثاثہ تھے جو گھٹتے بڑھتے رہتے تھے۔ بچپن میں ہم دونوں جب اسکول سے گھر آتے تو تپتی دوپہر ہوتی۔ اس کا گھر ہم سے پہلے پڑتا تھا چنانچہ وہ دروازہ کٹھکھٹا کر آواز دیتا، "گل پری خان" دروازہ کھولو۔ تھوڑی دیر کے بعد اس سے بھی زیادہ زور سے چلاتا، خان گل پری خان دروازہ کھولو۔ گل پری اس کی چھوٹی بہن تھی۔
والدین اس وقت سو چکے ہوتے اور صرف گل پری ہی جاگ رہی ہوتی اور دروازہ کھولنا نہ کھولنا اس کے اختیار میں ہوتا۔ ہم نے جب پہلی مرتبہ گل پری خان۔ اور "خان گل پری خان" سنا تو اس سے پوچھ لیا بلکہ طعنہ دیتے ہوئے کہا، لڑکی کو خان کیوں کہتے ہو۔ کیونکہ یہ بالکل اصول کے خلاف تھا۔"خان" صرف مردانہ خطاب ہے جو کسی لڑکی یا عورت کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔ لیکن جو جواب گل خنان نے دیا وہی اس کا پہلا قول زریں ہے جو ہم نے پلے باندھ لیا ہے۔ اگر خان نہ کہوں تو دروازہ نہیں کھولتی۔ آگے پھر زندگی کے اس لمبے سفر میں جہاں بھی دیکھا جدھر بھی دیکھا دروازے ہی نظر آئے اور سب کی چابی "خان" تھی۔
معلوم نہیں لیکن ہمیں شک ہے کہ وہ علی بابا کو چوروں کے غار کا جو کوڈ ملا تھا، وہ بھی کہیں زبان و بیان کی غلطی سے سم سم ہو گیا ہو گا ورنہ اصل "خان خان" ہی رہا ہو گا۔ کیونکہ بڑے بڑے دروازے اور خاص طور پر جن کے اندر بہت سارا مال بھی ہو، خزانے ہوں لعل و جواہرات ہوں۔ اتنی آسانی سے ہر کسی پر نہیں کھلتے۔ اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ خزانے صرف چوروں ہی کے پاس ہوتے ہیں، عام آدمی کے پاس صرف ایک گدھا ہوتا ہے جو وہ "خود" ہوتا ہے۔ گل خنان کو یاد بھی نہیں کہ اس نے کتنا بڑا قول زریں بچپن میں ارشاد کیا ہے اور اس کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ وہ بچپن میں بھی اتنا لائق تھا جتنا اب ہے۔
ہم نے اس کے ریٹائرڈ ہونے پر ایک مرتبہ اسے یہ اس کا پہلا "قول زریں " یاد دلایا تو اسے یاد ہی نہ تھا، اس لیے اس کے ہونٹوں میں وہی چار دانت دکھائی دیتے رہے، نہ ساڑھے تین ہوئے نہ ساڑھے چار بلکہ اسے اس جملے کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا کہ "خان گل پری خان دروازہ کھولو"۔ لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے بلکہ کبھی نہیں بھولے کہ دروازے کس کوڈ سے کھلتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم کسی بھی دروازے کے اندر نہیں گئے، اس ڈر سے کہ اگر اندر جا کر قاسم کی طرح کوڈ بھول گئے تو؟ ۔۔ جانے سے اندر نہ جانا ہی بہتر ہے۔ البتہ علی باباؤں کو دیکھتے رہے جو گل پری کو خان گل پری بنا کر جاتے رہے اور لدے پھندے آتے رہے جاتے رہے۔ جن میں کبھی کبھی کوئی بدبخت قاسم کے انجام سے بھی دو چار ہو جاتا۔ اور یہی ڈر ہمیں بھی روکے رہا ورنہ کس کا جی نہیں چاہے گا کہ کسی چوروں کے غار یا خزانے کے اندر جا کر "گدھا" بن جائے اور لد پھند کر باہر آ جائے۔ لیکن۔ اور یہی لیکن ہی تو سارے فساد کی جڑ ہے۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
اور یہ اسی با برکت "ڈر" کا نتیجہ ہے کہ ہم ابھی تک زندہ ہیں اور شرمندہ بھی نہیں۔ اگرکہیں قاسم بن جاتے تو۔۔ گبرسنگھ نے جھوٹ کہا تھا کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ حقیقت میں جو ڈر گیا وہ بچ گیا۔