یہ کہانی ہماری زبانی جو آپ کو سنانی ہے نہ تو پرانی یعنی کہانیوں کی نانی ہے اور نہ اس میں کوئی عبرت وموعظت یا سبق ہے بلکہ اس میں چونکہ بہت زیادہ خطرات خدشات اور تحفظات ہیں اس لیے چھوڑ کرہم ایک اور کہانی آپ کو سنائیں گے اور پھر اس پرانی کہانی یعنی "معلوم"سے آپ کو نامعلوم یعنی نئی کہانی کا اندازہ لگاناہے۔
جس زمانے میں ہم پاس کے ایک گاؤں یا قصبے میں پڑھتے تھے تو ہمارے لیے والدصاحب کا آرڈر تھا کہ ہم صبح منہ اندھیرے اٹھیں گے رات سے تیار کیا ہوا بستہ لے کر پہلے ان کے ساتھ کھیتوں میں جائیں گے وہاں ڈیڑھ دو گھنٹے کام کریں گے پھر وقت ہونے پراسکول جائیں گے اور پھر چھٹی ہونے پر گاؤں جانے کے بجائے کھیتوں والے ڈیرے پہنچیں گے اور شام کو سب کے ساتھ گھر آئیں گے۔
اس سلسلے میں والد محترم نے ایک مجموعہ قوانین مرتب کیا تھا جس میں زیادہ تر دفعات "تعزیرات"پرمبنی تھیں اور جو ہم پر اکثر لاگو کی جاتی تھیں، تعزیرات کے ساتھ حکایات اور ہدایات بھی ہوتی تھیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ دوپہر کا کھانا صرف شہ ور یعنی ٹٹوبٹارے لوگ گھر کھاتے ہیں، "زمیدار"لوگ دوپہر کا کھانا کھیتوں میں کھاتے ہیں، لفظ"زمیدار"وہ نہیں جو اردو میں استعمال کیاجاتاہے یعنی زمیندار جو تقریباً جاگیرکے معنی میں مستعمل ہے۔ بلکہ یہ "زمیدار"زمین میں کام کرنے والوں کے لیے مختص ہے، چاہے زمین اپنی ہو یا بٹائی کی۔
ہمارے گھرانے کا انحصار تھوڑی سی زمین اور بہت زیادہ محنت پرتھا۔ والد صاحب کا قانونی نظریہ اس حکایت پرمبنی تھا کہ ایک صاحب نے مرتے وقت بیٹوں کو وصیت اور نصیحت کی کہ ہمیشہ "سائے"میں کھیتوں پر جانا۔ بیٹوں نے اس نصیحت پریوں عمل کیا کہ ایک نے زرکثیر صرف کرکے گھر سے کھیتوں تک ایک سرنگ کھودی دوسرے نے سارے راستے پرچھپڑ ڈالی لیکن تیسرے نے کچھ بھی نہیں صرف سویرے منہ اندھیرے جاتاتھا اور شام ہونے کے بعد لوٹتا تھا۔
ہمارا تعلق بھی شاید اس آخری والے کی نسل سے تھا ویسے تو کھیتوں میں ہمیشہ کام ہوتا تھا لیکن گندم کی کٹائی گہائی اور صفائی کے سیزن میں کام دگنا ہوجاتاتھا کیونکہ ابھی تھریشر ایجاد نہیں ہوا تھا بیلوں سے گہائی ہوتی تھی۔ جس کی سختی کا اندازہ اس کہاوت سے لگایاجاسکتاہے کہ اگر ہمیشہ کٹائی رہتی تو جوان باقی نہ رہتے اور اگر گہائی ہوتی تو کوئی بیل باقی نہ رہتا۔
والدصاحب نے اس پر یہ اضافہ بھی کیاہواتھا کہ گندم چونکہ جنت کا میوہ ہے اس لیے گندم کے لیے بھی اتنی محنت کرناپڑتی ہے جتنی جنت حاصل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ گہائی کے بعد بھوسہ اور دانے اکٹھے ایک ڈھیر کی صورت میں ہوتے تھے اور ہوا میں اڑاکر دانہ الگ اور بھوسہ الگ کیاجاتاتھا۔
انحصار چونکہ موافق ہوا پر ہوتاتھا اس لیے ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے چنانچہ زمیدار کبھی کھیت اور کبھی کھلیان کی طرف دوڑنے بھاگنے کی حالت میں ہوتے۔ والدمحترم کا ایک دوست تھا جو کسی صاحب مزار کی اولاد میں سے تھا اس کی روزی کا زیادہ انحصار تو اردگرد کے دیہات میں جاکر لوگوں سے اپنے جدامجد کی عبادتوں کا معاوضہ بلکہ جرمانہ وصول کرنا تھا۔ جو ایک طرح کی بھیک ہوتی تھی لیکن کبھی کبھی ہمارے ساتھ کھیتوں میں دیہاڑی پرکام بھی کر لیتا تھا۔ ایک سیزن میں ہمارے کھیتوں میں بھی کام بہت تھا اور کھلیان میں بھی۔
والدصاحب نے اس میاں صاحب کو دیہاڑی کے لیے کہا لیکن اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ فلاں گاؤں کے"خان"کا خرمن صاف ہورہاہے اور وہ مجھے اچھا خاصا شکرانہ دیتاہے اس لیے مجھے روزانہ وہاں جانا پڑتاہے کہ جب اناج صاف ہو تو مجھے شکرانہ مل جائے۔ اس گاؤں تک آتے جاتے اس کا راستہ ہمارے کھیتوں پرسے گزرتاتھا اس لیے وہ تھوڑی دیر ٹھہرکر والدصاحب کے ساتھ گپ شپ بھی کرتاتھا ہم گوڈی نلائی کرتے اور وہ مینڈھ پر یہاں وہاں بیٹھ باتیں کرتا۔ جن میں زیادہ ان کے جدامجد کی کرامات کا ذکرہوتاتھا۔ اس طرح چھ دن گزرگئے لیکن ہوا موافق نہ ہونے کی وجہ سے خان کا اناج صاف نہیں ہورہاتھا آخرکار ساتویں دن میاں صاحب اپنی چادر میں آٹھ دس سیرگندم باندھے آگیا۔
خان کا اناج صاف ہوگیا تھا اور میاں صاحب کو شکرانہ مل گیاتھا۔ والدصاحب نے اس کی چادر میں بندھی ہوئی گندم اٹھائی تھوڑی دیر ہاتھوں میں تولتے رہے پھر پھینک کرکھرپااٹھایا اور میاں صاحب کی پیٹھ اور کاندھوں پرمارنے لگے۔ ہم بھی حیران میاں صاحب بھی حیران کہ آخرہوا کیا جو اس کی مرمت ہورہی ہے، دوچار ہاتھ مارنے کے بعد والدصاحب بولے یہ گندم زیادہ سے زیادہ چار روہے کی ہے۔ اس زمانے میں گندم کا نرخ بیس روپے من سے بہت کم تھا کیونکہ حبیب جالب نے یہ شعر بہت بعد میں سنایاتھا کہ
بیس روپے من آٹا
اس پربھی ہے سناٹا
پھربولے اگرتم یہ سات دن میرے ساتھ دیہاڑی لگاتے تو ڈیڑھ روپے روزانہ کے حساب سے ساڑھے دس روپے کماچکے ہوتے بلکہ پندرہ بھی ہوسکتے تھے اگرشام کو بھی آتے کیونکہ وہاں تو شام تک رہتے تھے۔ اب یہ پرانی کہانی تو آپ نے سن لی ہے نئی کہانی تلاش کریں جو اسی کہانی میں اور یہیں کہیں آس پاس چل رہی ہے اور چھپی ہوئی بھی نہیں ہے۔ پھربھی اگر آپ دشواری محسوس کررہے ہیں تو مدد کے طور پر ایک اور کہانی سنیے اس کا تعلق بھی بچپن سے ہے۔
ایک مکھی ہوتی تھی جسے اپنے ہاں "کلالی مکھی"یعنی کمہارمکھی کہتے یہ نہ بھڑہوتی ہے نہ کچھ اور بلکہ دیواروں یا درختوں کے تنوں پرمٹی کا ایک گھروندہ بناتی ہے جو ایک سرنگ سی ہوتی ہے شاید انڈے دینے کے لیے۔ عام مکھی ہے کسی کام کی نہیں لیکن زیادہ ترلوگ توجہ نہیں دیتے لیکن اس کا جسم بڑا عجیب ہوتاہے جس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک سر اور دھڑ۔ اورپچھلا حصہ۔ اور یہ دونوں ایک باریک سی"کمر"کے ذریعے بندھے ہوئے ہوتے ہیں جو دھاگے جتنی باریک ہوتی ہے گویا اردو شاعروں کے محبوب کی "کمر"ہوتی ہے نہ ہونے کے برابر۔
سناہے یہ کہ ان کی بھی کمرہے
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھرہے
غالب نے بھی یہ کمر دیکھی ہوئی تھی اس لیے فرماگئے ہیں کہ
ہے کیا جو کس کے باندھے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمرکو میں
اور یہ کہانی اسی مکھی کی اسی باریک اور تقریباً نہ ہونے والی باریک"کمر"کی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مکھی بڑی "خیرات خور"بھی جہاں کہیں مفت کی خیرات جمعہ یا چہلم برسی یا عقیقہ ولیمہ ہوتاتھا وہاں پہنچ جاتی تھی ایک مرتبہ اس کی بدقسمتی سے دو مختلف مقامات پرالگ الگ خیراتوں کی اسے خبر ملی۔ مثلاً ایک خیرات چین میں تھی اور دوسری سعودی عرب میں۔ اس نے تدبیر یہ کی کہ اپنی کمرسے دو الگ الگ رسیاں باندھیں جو اس وقت اچھی خاصی کمرتھی پھر دونوں مقامات پر اپنے رشتہ داروں کے ہاتھ میں ایک ایک رسی کا سرا دیتے ہوئے ہدایت کی کہ جیسے ہی تمہارے ہاں "خیرات"شروع ہو رسی کھینچ لو۔
اتفاق سے دونوں جگہ خیرات بیک وقت شروع ہوگئی اور دونوں اطراف کے رسہ کشوں نے رسی کھینچنا شروع کی درمیان میں کھڑی مکھی انھیں منع بھی نہیں کرسکتی تھی چنانچہ دونوں طرف سے انتہائی دباؤ کی وجہ سے ب چاری کی"کمر"ہی غائب ہوگئی اور اس کی جگہ ایک باریک دھاگہ رہ گیا۔ ہائے میری کمر۔