ایک بادشاہ عالم پناہ اور عوام فنا کو شاہوں بادشاہوں اور امیروں کبیروں اور وزیروں مشیروں کی وہ مشہور ومعروف بیماری لاحق ہوگئی۔ جسے سب سے بڑا بننا، مشہور عالم اور مذکور عوام ہونا کہتے ہیں۔
خداکا دیا ہوا، عوام سے چھینا ہوا اور اجداد کا چھوڑا ہوا بہت سارا مال اس کے پاس تھا اور بے شمار وہ چلتے پھرتے کنوئیں بھی جن سے ہر چیز برآمدکی جاسکتی ہے، تیل نکالا جاسکتاہے، بجلی بنائی جاسکتی ہے، توپ وتفنگ اور سونا چاندی لعل وجواہر سب نکالے جاسکتے ہیں، ان چلتے پھرتے اور"زندہ مردہ"کنوؤں کو پرانے زمانے میں عوام کالانعام کہا جاتا تھا اور آج کل ووٹ کہلاتے ہیں۔ چنانچہ اس نے سخاوت میں نام کمانے کا کام شروع کردیا، روز ایک کھڑکی میں بیٹھتا اور دونوں ہاتھوں سے دولت بانٹتا جو بھی آتا اس کی جیبیں منہ اور ناک کان موتیوں سے بھرتا۔
جگہ جگہ لنگر چلتے اور طرح طرح کی انکم سپورٹ، نکما سپورٹ، نکھٹو سپورٹ اور چرسی افیمی شرابی جواری اور بھکاری سپورٹ اسکیمیں چل رہی تھیں۔ دوسری طرف سرکاری لوگ دستی ٹکسال لیے پھرتے اور کالانعام کے چمڑے سے سونے کے سکے بناتے، خون سے لعل وجواہر نکالتے اور پسینے سے سونا چاندی بناتے چنانچہ ملک میں عجیب طرح کی تبدیلیاں عام ہوگئیں۔
بھکاری راتوں رات سیٹھ ساہوکار بن جاتا اور سیٹھ ساہوکار کشکول بردار ہوجاتے۔ بہت سے بہی خواہ مشیروں نے بادشاہ کو سمجھایا بھی لیکن وہ سمجھدار ہوتا تو سمجھتا۔ لیکن وہ خود کو سمجھ کی سمجھ دانی سمجھتاتھا اور اس کی سمجھ دانی میں صرف یہ "سمجھ"گھس گئی تھی کہ دنیا اسے بڑا سخی اور دیالو سمجھے، چاردانگ عالم میں اس کی سخاوت کے چرچے ہوں، تاریخ میں "پرچے" ہوں اور اس کے لیے جتنے بھی خرچے ہوں پروا نہیں۔
آخرکار اس کی بیوی یعنی ملکہ عالم اپنے ایک دانا وبینا دانشور پیرکے پاس گئی اور اپنی بپتا سنائی۔ پیر نے اطمینان دلایا کہ وہ اس کا کوئی نہ کوئی اپائے ڈھونڈ لے گا۔ کچھ روز پیرصاحب اس راستے میں بھیس بدل کرکھڑے ہوگئے جس سے بادشاہ کو آناتھا۔ بادشاہ اپنے دس گھوڑوں کے رتھ میں سرپٹ دوڑا جارہاتھا کہ پیرصاحب ایک ضعیف انسان کے بھیس میں سامنے آیا اور شدید زخمی ہوگیا بادشاہ نے رتھ رکوایا۔ زخمی کو اٹھایا جھاڑاپونچھا۔ اور معذرت خواہ ہوا۔ پھر اسے بتایا کہ میں بادشاہ ہوں مانگ کیا مانگتاہے۔
فقیر نے اسے دیکھ کرحقارت سے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔ تو مجھے کیادے گا تیری تو شکل ہی دینے والوں کی نہیں۔ بادشاہ نے اپنا غصہ روکتے ہوئے مزید کہا کہ تم میرے بارے میں جانتے نہیں، میری ٹکر کا سخی بادشاہ نہ کبھی تاریخ میں ہوا ہے نہ جغرافیے میں پیدا ہوگا مانگو جو کچھ مانگوگے دے دیاجائے گا۔ فقیر نے کہا ٹھیک ہے لیکن فی الحال تم اپنے راستے جاؤ۔ اور میں اپنے راستے جاتا ہوں کل میں دربار میں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ تم کتنے سخی اور دل والے ہو دوسرے دن بادشاہ اس کے انتظار میں تیار بیٹھا تھا خزانوں کے کارپرداز کھڑے تھے دربار میں سونے چاندی اور لعل وجواہر کی بوریاں رکھی ہوئی تھیں کہ فقیر آپہنچا۔
بادشاہ نے پوچھا اب بتاؤ کیا چاہیے۔ فقیر نے ادھر ادھر دیکھا پھر بادشاہ کے چہرے پرنگاہیں گاڑھتے ہوئے بولا۔ چھوڑو تم میرا مطالبہ پورا نہیں کرسکوگے۔ بادشاہ کو تاؤ چڑھا تم بولو تو سہی۔ فقیر نے کہا اپنی زبان سے پھرو گے تو نہیں۔ بادشاہ نے کہا تم نے مجھے سمجھ کیا رکھاہے میرا خاندان سو پشت سے"اہل زبان"کا خاندان ہے ہم جو وچن دیتے ہیں اسے ضرور پورا کرتے ہیں ہمارا خاندانی نعرہ یہ ہے کہ پر ان جائے پر وچن نہ جائے۔
فقیر نے کہا ٹھیک ہے تو ترازو منگوایے اورمیرے وزن کے برابر دولت دے دیجیے۔ بادشاہ ہنسا بس اتنی سی بات۔؟فقیر نے کہا ہاں بس اتنی سی بات۔ بہت بڑا ترازو دربار میں نصب کیاگیا فقیر ایک پلڑے میں بیٹھ گیا اور دوسرے پلڑے میں دھن دولت ڈالا جانے لگا لیکن ترازو تھا کہ ہلتا نہیں تھا شاہی دولت تمام ہوئی تو بادشاہ نے اپنا سونے کا تاج اور جسم پر لگے زر وجواہر بھی ترازو میں رکھ دیے لیکن فقیر کا پلڑا بدستور زمین پرتھا۔
بادشاہ نے ملکہ اور کنیزوں سے زیور اتارنے کوکہا تو فقیر بولا آپ کو یہ حق حاصل نہیں تاج اور تخت بھی تم پلڑے میں رکھ چکے ہو اس لیے اب یہ محل یہ خدام اور یہ سب کچھ میرا ہوچکاہے حکومت بھی میری ہوچکی تمہارا اپنا کچھ ہو تو لاؤ اور اپنا وعدہ نبھاؤ۔ اپنا اس کے پاس کیا تھا۔ بیچارا حیران و پریشان کھڑا تھا پسینے چھوٹ رہے تھے اور اس کے دیالوپن کی ہوا نکل گئی۔
فقیر نے کہا ترازو ابھی تک برابر نہیں اور تمہیں اپنا وچن پوراکرناہے اس لیے جاؤ اور کہیں سے کچھ کما کر لاؤ میں یہیں بیٹھا رہوں گا۔ بادشاہ نکل گیا اب تو اس کے سر پر نہ تاج تھا نہ ہیرے جڑے لباس تھا، ایک عام آدمی تھا سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کرے تو کیاکرے، ادھر اپنے خاندان کی لاج بھی رکھنا تھی، وچن نبھانا بھی تھا ورنہ خود وہ تو کیا اس کے آباواجداد بھی عالم میں رسوا ہوجاتے۔
ایک کھیت کے قریب سے گزر رہا تھا کھیت کے کنارے کسان بیٹھا ہواتھا کھیت میں "ہل"تھا لیکن بیل ایک تھا بادشاہ نے اس کسان سے کہا کہ اگر کوئی کام ہو تو مجھے سے کرالو اور مزدوری دے دو۔ ارے ہاں یہ تو ہم بھول گئے کہ اس سے پہلے وہ اپنے تمام دوستوں کے پاس بھی مدد مانگنے گیا تھا جو اس کی سخاوت کی وجہ سے امیر کبیر بنے تھے اور بھی جتنے جان پہچان کے لوگ تھے سب کے پاس گیا تھا لیکن سب نے پہچاننے اور مدد کرنے سے انکار کردیاتھا۔
اب کسان نے اس سے کہا کہ میں اس کھیت میں ہل چلارہاہوں لیکن میرا ایک بیل بھاگ گیاہے اب اگر تم اس بیل کے ساتھ جوئے میں سر دیکر ہل کھینچو اور میرا یہ کھیت جوتنے میں میری مدد کرو تو میں تجھے صرف روٹی کھلاسکتاہوں اسے شدید بھوک بھی لگی ہوئی تھی اس لیے راضی ہوکر اراضی جوتنے لگا، کئی گھنٹے ہل کھینچنے پر اس کے کاندھے چھل گئے ہاتھوں پیروں میں زخم ہوگئے اور سانس دھونکی کی طرح چلنے لگی۔
کام ختم ہوگیا تو کسان نے اپنے کپڑوں کے پاس رکھی ہوئی پوٹلی کھولی اور اسے ایک روٹی کے اوپر پیاز رکھ کر دے دیا کہ یہ لو اپنی اجرت۔ بادشاہ نے روٹی کھانا چاہی لیکن پھر اپنا وچن یاد آیا روٹی لے کر دربار پہنچا، فقیر بدستور ترازو میں بیٹھا ہواتھا اس نے روٹی اور پیاز لے جاکر ترازو میں رکھا تو اچانک ترازو کا پلڑا زمین سے جالگا اور فقیر والا پلڑا اوپر اٹھ گیا۔
فقیر نے کہا اب اس پلڑے سے یہ زر وجواہر سب اتارو اور صرف روٹی اور پیاز رکھ دو۔ اس نے ایسا کیا تو پلڑا پھر بھی زمین پر رہا اور فقیر والا پلڑا ذرہ بھی نیچے نہیں آیا۔ فقیر نے مسکراتے ہوئے اسے کہا مفت کی دولت پر سخاوت کرنا آسان ہے لیکن محنت کی کمائی کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ پھر ترازو سے اتر کراپنی شکل میں آتے ہوئے کہا یہ سب کچھ تیرا ہے مجھے کچھ نہیں چاہیے میں تجھے صرف یہ دکھانا چاہتاتھا کہ خود بھی محنت کرکے کھاؤ اور رعایا کو بھی محنت کرکے کھانے پر لگاؤ۔ کیا سمجھے بادشاہ حضور؟