ہمیں سکھایا گیا ہے اور ہر پشتون کو سکھایا جاتا ہے کیونکہ یہ پشتون کے اس غیر تحریر شدہ آئین وقانون کی اہم ترین دفعہ ہے جسے "پشتو" میں کہتے ہیں کہ اگر تم میزبان ہو تو مہمان کو خدا کی رحمت سمجھ کر بلکہ فرستادہ سمجھ کر دل و جان سے مہمان نوازی کرو اور اگر تم مہمان ہو تو میزبان کی لاج کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھو۔
پشتونوں کے ہاں ایک "پشتو" تو زبان ہے جو بولی جاتی ہے لیکن ایک دوسری "پشتو" بھی ہے جو "کی" جاتی ہے۔ یعنی اس پرعمل کیا جاتا ہے یہ ایک ایسا قانون یا دستور ہے جوکہیں لکھا نہیں گیا ہے لیکن پشتون کی رگ وپے میں موجود ہوتا ہے۔
اب تو مختلف حکومتوں اور ان کے منافقانہ قوانین نے اس "پشتو" نام کے قانون کو بڑی حدتک مسخ کر دیاہے اور لالچ وہوس نے اس میں بہت ساری ترامیم کرکے بگاڑ دیاہے لیکن پھربھی کچھ اچھی دفعات اس کی باقی ہیں جن میں یہ مہمان نوازی اور میزبان نوازی کی دفعہ بھی ہے۔
میزبان کے فرائض توظاہر ہیں لیکن "مہمان"پرجو فرائض عائد ہوتے ہیں ان کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا کیونکہ اس کی بنیاد ہی "ذکرنہ کرنا" یعنی نہ کہو کچھ بھی نہ کہو کہ میزبان نے تمہیں کیا کھلایاہے اور کیسی مہمان داری کی ہے اس لیے کہاوتیں بھی وضع ہوئی ہیں، ایک یہ کہ پشتون اپنے میزبان کی تھالی یا دسترخوان کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کی پیشانی کو دیکھتا ہے، دوسری یہ کہ "پیاز"ہو لیکن محبت اور نیاز کے ساتھ ہو۔ لیکن آج ہم جس مہمان نوازی کا قصہ آپ کو سنارہے ہیں اس میں ہم نے اس قانون کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اب کرنے جارہے ہیں۔ کیونکہ جس میزبان کے ساتھ ہمارا واسطہ تھا اس نے آداب میزبانی کی دھجیاں اڑادی تھیں۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب شمالی ریاستیں تازہ تازہ پاکستان میں ضم کی گئی تھیں۔ انضمام کا اعلان توگو نیا تھا لیکن انتظامی ڈھانچہ کافی عرصے تک پرانا رہاتھا۔ چنانچہ تحصیلدار ہمارے ہاں کی طرح صرف ریونیو افسر نہیں ہوتاتھا بلکہ وہ اپنی تحصیل کا مکمل حکمران ہوتاتھا، پولیس بھی اس کے ماتحت ہوتی تھی مجسٹریٹ بھی اور قانون بھی۔ غرض یہ کہ تحصیل میں ہونے والے ہرسرکاری کام کا کلی اختیار تحصیلدار ہوتا تھا۔
وہ جب نکلتا تھا توکسی بادشاہ یا گورنر یا والی کے پروٹوکول اور عملے کے ساتھ نکلتا تھا۔ صرف اس کے سر کے علاہ باقی سارے سر جھکے ہوئے اور زبانیں گنگ ہواکرتی تھیں۔ ہمارے ایک ٹھیکیدار دوست نے اپنی ریاستوں میں ایک ریاست کے اندر سڑک تعمیر کی تھی۔ جونہایت دشوار گزار اور مشکل کام تھا پھرکامیابی کے بعد اس نے اس ریاست کے ایک پرفضا مقام پربہت بڑی تقریب اور دعوت کا انتظام کیاتھا ہمیں بھی بلاوا بلکہ حکم دیاگیاتھا کہ آنا لازم ہے۔ ہم گئے تقریب ہوگئی اور حسن اتفاق ایسا ہوا کہ اس تحصیل کا تحصیلدار اپنا دیرینہ شناسا نکلا۔
جب پشاور میں پڑھتا تھا توہمارے اخبار کے مالک نے اس کی لگن اور محنت دیکھ کر اخبار میں پروف ریڈر لگوایا تھا، مقصد صرف ایک مدد کرنا تھی ورنہ ایک دور دراز کی ریاست کا باشندہ اور اردو کی پروف ریڈنگ، لڑکا محنتی تھا چنانچہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ریاست چلا گیا اور اب ہم اسے ایک تحصیلدار کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ تقریب اور ٹھیکیدار کی مہمان نوازی ختم ہوئی لوگ واپس جارہے تھے لیکن ہمیں اس تحصیلدار نے روک لیا کہ چند روز ہمارے مہمان بن کر رہ جاؤ۔ آفرقبول کرلی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اچھا بھلا پشتون اور پڑھا لکھا نوجوان تھا ہمارے ساتھ ادبی صحافتی اور سیاسی دنیا میں بھی رہاتھا۔ یوتووہی بات ہوئی کہ "لوہے"کی اصل خراب ہو توماہر سے ماہر لوہار بھی اس سے کوئی کام کی چیز نہیں بناسکتا۔
یا ایک غریب گھرانے سے ایک دم بادشاہ بننے کا اثر تھا۔ کیونکہ سناتھا کہ اس نے اپنی پہلی والی بیوی جس کے ساتھ شادی اس کے ماں باپ کی مرضی سے ہوئی تھی، کو تقریباً چھوڑدیا تھا، وہ اپنے گاؤں میں مقیم تھی اور اس نے نئی نویلی دلہن اپنی مرضی یعنی لومیرج کرلی تھی اور یہ اس کی بیوی کا کیا دھرا تھا۔ رات گزار کر پہلے دن کا ناشتہ جوہمیں نوکروں نے کرایا وہ پراٹھے چائے پرمشتمل تھا اور ایک دو نوکر بھی ساتھ بیٹھے تھے، دوسرے دن سوکھی روٹی ملی، تیسرے دن ہمیں ایک پیالی چائے اور ایک بن ملا، چوتھے دن صرف چائے وہ بھی تھرماس کی باسی۔ اس حساب سے دوسرے کھانوں کا بھی اندازہ کرلیجیے لیکن یہ بھی کوئی خاص بات نہ تھی۔
ہم پابند تھے کہ میزبان کا بھرم اور احترام قائم رکھیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ پہلی رات کی شام کے بعد "صاحب"سے ملاقات تک نہیں ہو پا رہی تھی۔ پوچھنے پرکبھی دورے، کبھی عدالت کبھی میٹنگ اور کبھی آرام کا مژدہ سننے کوملتا۔ ہم حیران تھے کہ آخر اس نے ہمیں ٹھہرایا کیوں تھا جس ٹھیکیدار سے اس نے ہمیں چھینا تھا وہ دریا سمندر آدمی تھا اور اس کا ارادہ ہمیں ٹھہرانے اور ریاست بھر کی سیرکرانے کا تھا۔ چند دوستوں کو وہ لے بھی گیاتھا۔ آخرضرورت کیاتھی ہمیں روکنے مہمان بنانے اور پھر اس طرح بے وقعت و بے توقیر کرنے کی۔
شاید اپنے گزشتہ دور میں اپنی کمتری کا بدلہ لینے کے لیے یا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں کیا ہوں اور تم کیا ہو۔ جب کہ نہ تواس کی وجہ غربت یامفلسی تھی سب کچھ اتنا وافر تھا کہ حیرت ہوتی تھی، روزانہ دس بارہ ڈالیاں، مرغے مرغیاں، انڈے، دودھ، گھی، چاول اور اجناس کے ڈھیر آتے تھے، دکاندار اور تاجر یا عام لوگوں کے نقد نذرانے الگ۔ ہم نے ایسے بہت سے دوستوں کی میزبانی دیکھی ہے جن میں ان کی غربت جھلکتی تھی لیکن ان میں "روشن پیشانی"کی روشنی ہوتی تھی اس لیے من وسلویٰ سے کم نہ تھی۔ لیکن یہاں توپیشانی سرے سے تھی نہیں۔ توہم کیادیکھتے۔ چنانچہ چوتھے دن ناشتے میں صرف ایک پیالی تھرماس کی باسی چائے پی کر ہم نے اپنی گٹھڑی لی اور سیدھے اڈے جاپہنچے پھر بسیں بدلتے ہوئے رات کے ایک بجے گھرپہنچے۔ راستے میں بہت سارے دوست پڑتے تھے لیکن طیش کے مارے ہم کہیں نہیں ٹکے۔
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتاہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
وہ دن اور آج کادن ہم کسی کے مہمان نہیں بنے بلکہ مہمان بننے سے اتنا ڈرتے ہیں کہ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد اور بہت سارے شہروں سے رات رات بھر سفر برداشت کیا لیکن مہمان بننے سے موت کو بہتر سمجھا۔