غلط سراسر غلط اور اپنی عادت کے مطابق بالکل "صحیح غلط" سوچ رہے ہیں آپ۔ ہم آپ کو مٹاپا دور کرنے کا کوئی مروجہ نسخہ نہیں بتا رہے ہیں بلکہ جو نسخہ ہم پیش کرنے والے ہیں، اس کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک نہ تو کسی کو بتایا گیا ہے نہ کہیں لکھایا پڑھا گیا ہے اور نہ ہی استعمال، سوری استعمال تو ہوتا رہتا ہے لیکن بالکل ان جانے میں۔ یعنی کسی کسی کو اتفاقاً اور خوئی قسمت سے نصیب ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی اسے پتہ نہیں ہوتا کہ خدا نے اسے کتنی نعمت عظمیٰ سے نوازا ہے۔
یہ نسخہ نہ کھانے کا ہے نہ پینے کا ہے نہ ورزش کا ہے اور نہ ہی کسی بیلٹ یا آپریشن وغیرہ کا ہے، بالکل ہی نیچرل بلکہ کچھ زیادہ ہی "نیچرل" نسخہ ہے اور تقریباً کسی کو اس کے گھر میں دستیاب بھی ہوتا ہے۔ آپ کے صبر اور موٹاپے کا مزید امتحان نہ لیتے ہوئے بتائے دیتے ہیں کہ اس تیر بہدف رام بان اور بلٹ آن دی ٹارگٹ، نسخے کا نام "بیوی" ہے جس کے بارے میں بزرگوں نے پہلے ہی بتایا ہوا ہے کہ سو بیماریوں کا علاج صرف یہی ایک بیماری ہے یعنی۔ ع
چاند کے ساتھ بہت درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
اور ان سو امراض میں سے ایک مرض موٹاپے کا بھی ہے جس کے لیے یہ نسخہ ھو الشافی وھو الکافی ہے۔ لیکن اس نسخے کا طریقہ استعمال وہ بھی نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں یا جو وزیر کی بیٹی نے وزیر کو بتایا تھا کہ دنبے کے سامنے کتا باندھیے، پھر دنبے کو کھلایئے اور کتے کو بھوکا رکھیے بلکہ عین یہی نسخہ آج کی حکیم الحکماء طبیب الاطباء اور حاذق الحذقاء آئی ایم ایف نے پاکستان کو بھی "تجویز" کیا ہوا ہے کہ عوام کو کھلایئے پلایئے اور مہنگائی کو ان پر چھوڑتے رہیے، یہ ویسا بھی نہیں بلکہ کچھ اس طرح کا ہے، مختصر الفاظ میں تو یوں ہے کہ یہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ شوہر کو اچھے اچھے کھانے کھلا کر ہاتھی بنا دے یا انتہائی برے کھانے بنا کر اور نہ کھلا کر چوہا بنا دے۔ آپ کسی بھی موٹے کا پتہ لگایئے، اس کی بیوی اچھے کھانے بنانے والی نکلے گی۔
یہ نسخہ ہمیں کسی تحقیق یا جستجو سے نہیں ملا ہے بلکہ اتفاقاً اور عملاً ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوتا رہا ہے لیکن افسوس کہ ہماری سمجھ میں بہت دیر سے آیا۔ چلیے پورا قصہ سنائے دیتے ہیں۔ قصے کا قصہ اور نسخے کا نسخہ۔ علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی جب پہلی شادی ہوئی تو اس وقت مفت حلوے جمعہ جمعرات اور چہلم برسیاں کھا کر ہاتھی میرے ساتھی تھے، اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ابھی اندر کا مال و متاع کھال کو پھاڑ کر دھماکے سے پھٹ جائے گا اور چاروں اطراف میں بہنے لگے گا۔ لیکن شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو والدین کی اکلوتی اولاد تھی چنانچہ انھوں نے اسے بیٹا بیٹا کہہ کر اور بیٹے ہی کی طرح بے مہار چھوڑ کر بیٹا ہی بنایا ہوا تھا۔ ایک ایسا بیٹا جو بدمعاش بن گیا تھا یا بن گئی تھی۔
گالیاں فراٹے سے دیتی تھی جیسے کسی نے ٹیپ ریکارڈ کو تیز موشن پر کر دیا ہو اور گالیاں بھی ایسی نایاب نایاب نادر نادر اور ناشنید ناشنید کہ مردوں کو بھی سن کر پسینے آ جائیں اور ستم پر ستم یہ کہ ڈائیلاگ کے ساتھ ایکشن بھی کرتی تھی۔ پکانا تو کیا چولہا جلانا تک نہیں جانتی تھی، ابتدا میں تو ساس کی محنت کی وجہ سے "ھنڈھوبالنا" بھی تین چار مہینے میں سیکھ پائی تھی اور اتنا ہی سیکھ پائی تھی کہ ساس ایسی بہو کی تاب نہ لا کر عزرائیل کی پناہ میں چلی گئی اور علامہ مکمل طور پر اپنی "سگھڑ" بیوی یا "بہو" کے رحم و کرم پررہ گیا۔
چنانچہ صرف ایک مہینے دو گوبھیوں کے برابر چہر دو انگل کا ہو گیا، لگا جیسے کسی نے غبارے کو پنکچر کر دیا ہو۔ کیونکہ بیوی جو کھانے اسے کھلاتی تھی وہ پیٹ میں کبھی پہنچتے ہی نہیں تھے "لٹکتی تلوار" کے ہٹتے ہی جا کر غسل خانے الٹ دیتا تھا، اوپر سے یہ حکم کہ کھانا صرف گھر میں کھائے گا، جمعہ جمعرات برسی چہلم بند۔ لوگوں سے کہا گیا کہ کچے اجناس کو خیرات کر کے گھر بھجوا دیا کریں، اس عظیم ظلم کی ہائے خالی نہیں گئی اور بیوی ایک برس سے بھی پہلے پہلے ساس کے تعاقب میں نکل گئی۔ دوسری شادی ایک ایسی عورت سے ہوئی جو ایک نہایت ہی وسیع دسترخوان اور ہمیشہ مہمان گھر سے آئی تھی اور دنیا کی تمام لذیذ ریسپیاں اس کو ازبر تھیں۔
شادی کے تین مہینے ہی میں غبارہ پہلے سے بھی زیادہ پھول گیا تھا کیونکہ وہ ان لذیذکھانوں کے علاوہ باقی سب کچھ بھول گیا تھا۔ اب یہ پتہ نہیں کہ ہاتھ میں "سواد" رکھنے والی اس شیف نما بیوی کی موت کیسے ہوئی؟ کچھ لوگ تو شک کرتے ہیں کہ رات کو کہیں علامہ ہی کے وسیع و عریض جسم تلے دب دبا کر سانس اس کے جسم سے اور وہ خود اس دنیا سے نکلی تھی۔
تیسری بیوی پہلی بیوی کی طرح پھوہڑ تو نہیں تھی، اچھے اچھے کھانے پکا سکتی تھی لیکن شوہر سے پہلے ساری زرخیزی خود ہڑپ لیتی تھی اور شوہر کو پانی نما شوربے اور گھاس میں پھوس پر گزارہ کرنا پڑتا تھا، کچھ کہہ بھی نہیں سکتا کہ اس کے پورے چھ بھائی تھے اور بہن سے بے پناہ محبت اور اس کے شوہر سے بے پناہ نفرت کرتے تھے۔ خوش قسمتی سے وہ بھی علامہ کے دبلے ہوتے ہوئے مکمل معدوم ہونے سے پہلے ہی داغ مفارقت دے گئی۔
اس کے بعد موجودہ علامنی کو کسی بھی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے سوائے نقدی کے۔ چنانچہ علامہ اس مرتبہ جمعہ جمعراتوں اور چہلم برسیوں پر آزاد چر رہے ہیں اور مٹاپے میں مر رہے ہیں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ مٹاپے کا سارا دارومدار بھی بیوی پر ہے اور دبلاپے کا بھی۔ اگر کسی کو مٹاپا لاحق ہے تو اسے آن ڈیوٹی بیوی سے کسی بھی طرح چھٹکارا پانا چاہیے۔
اچھے کھانے بنانے والی بیوی سے چھٹکارا گویا مٹاپے سے چھٹکارا ہے۔ ویسے یہ کلیہ اور نسخہ اگر تمام لوگ اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی پیش نظر رکھیں اور اپنی بیٹیوں کو باروچی خانے سے دور رکھیں یا خصوصی طور پر برے کھانے بنانے کی تربیت دیں تو جس گھر میں بھی جائے گی وہاں موٹاپے کا نام و نشان تک نہیں ہو گا اور جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور شادی کرنے کی سوچ رہے ہیں انھیں بیوی میں اور کوئی "گن" نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ جہیز وغیرہ کو بھی گولی ماریں صرف یہ دیکھیں کہ بیوی کتنے برے کھانے بناتی ہے، مجال ہے جو ایسے لوگوں کو کبھی مٹاپا چڑھے۔ ہے ناتیر بہدف بلکہ بیوی بہدف نسخہ۔ وھوالشافی