انسان کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے علم پر قانع ہوکر آرام سے بیٹھ جائے یا علوم کی کھوج ضرور کرے لیکن فیصلے اور فتوے صادر نہ کرے۔ وہی ہاتھی اور اندھوں کی مثال یاد دلانا چاہوں گا بلکہ اس سے بھی بہتر مثال مولانائے روم کی بیان کردہ وہ گڈریے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکایت ہے جو سنی تو اکثر لوگوں نے ہوگی لیکن حسب معمول اور حسب عادت اس پر غور کیے بغیر اپنے "علم"کے مقابل محض ایک حکایت سمجھی ہوگی حالانکہ اس پرغور کرنے سے اس کی اپنی تشفی بھی ہوسکتی ہے اور دوسروں کے درپے سے بھی بچا سکتی ہے اور مولانائے روم کی اس مثنوی کے بارے میں کہاگیاہے کہ
مثنوی معنوئی مولوی
ہست قراں در زبان پہلوی
مولانا نے ایک گڈریے کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک صحرا سے گزرتے ہوئے حضرت موسیٰؑ نے اس گڈریے کو سنا تو وہ کہہ رہاتھا یا گا رہا تھا۔ کہ اے خدا تم کہاں ہو؟اگرتم مجھے مل جاؤ تو میں تمہارے پاؤں دباؤں۔ حضرت موسیٰؑ نے سنا تو گڈریے کو ڈانٹا کہ یہ تم کیا اول فول بک رہے ہو۔ خدا ایسا تو نہیں۔ گڈریے نے سنا تو روتا اور چیختا ہوا ایک طرف دوڑ پڑا کہ یہ مجھ سے کیا ہوگیا۔ اس پر حضرت موسیٰؑ کو وحی ہوئی کہ آج تم نے میرے ایک سچے عاشق کو مجھ سے جدا کر دیا۔
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
اس کے لیے میں "وہی" ہوں جو وہ سمجھ رہا ہے اور تمہارے لیے وہی ہوں جو تم سمجھ رہے ہو۔
اب آتے ہیں قرآن اور طبیعات کی طرف۔ دراصل المیہ دونوں سے ناواقفیت اور سنی سنائی یا آدھی ادھوری جانکاریوں کا ہے اور کچھ اس میں مفادات اور اغراض ومقاصد کا بھی ہاتھ ہے خاص طور پر انسان کی اس فطرت کا کہ بڑے اور عمومی دائرے میں امتیاز نہ پاکر الگ الگ دائرے بنانا اس کی کمزوری ہے۔ لیکن آخری مکمل اور حقیقی "تعلیم" مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے لیکن پھر بھی خرافات میں پڑے ہوئے ہیں۔
حقیقت حکایات میں کھوگئی ہے
یہ امت خرافات میں کھوگئی ہے
صرف اپنے ذاتی مقاصد کے اسیر ہوکر توہمات اور اسرائیلیات بلکہ ہندیات تک کو فروغ دے رہے ہیں، ورنہ قرآن عظیم اور طبعیات میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اکثر طبعیات عین قرآنی ہدایات کے مطابق ہیں۔ طبعیات مسلسل قرآن کی تصدیق کر رہی ہے۔ قرآن پاک میں کچھ تین سو کے قریب آیتیں صرف شرعی مسائل اور روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں اور "آٹھ سو"کے لگ بھگ آیات میں ایک ہی بات بار بار دہرائی اور یاد دلائی گئی ہے۔ کہ دیکھو، غور کرو سوچو۔ آسمان زمین چاند ستاروں پرغور کرو زمین، پہاڑوں، دریاؤں اور چشموں پر غور کرو یعنی کائنات کی ہرچیز پر غور کرو اور اللہ رب العزت کی آیات نشانیاں اور قدرتیں تلاش کرو۔
لیکن دیکھو ان آیات پر کہیں بھی کوئی غور کررہاہے؟ کسی کو یاد بھی نہیں ہے کہ جو کام طبعیات آج بلکہ تین چارسو سال سے کرنے لگی اس کا حکم تو پندرہ سوسال پہلے مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔ لیکن مسلمانوں کو فرقہ بنانے، دائرے دیواریں بنانے اور پھر دکانیں سجانے سے فرصت ملے تب نا۔ علوم صرف وہی ہیں جو ان کو آتے ہیں۔ جو علم ذرا مشکل ہے سخت ہے اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے، آرام تیاگنا پڑتا ہے۔ کیا نہیں کہاگیاہے کہ علم جہاں کہیں ہوگا مومن کی میراث ہے اور یہ میراث قرآن نے ان کو سونپی ہے۔
اور کیا "چین"میں صرف دین کا علم تھا؟ میں یہاں قرآن اور جدید علم کی صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ قرآن کی سورۃ نمبر (104) میں کہاگیاہے۔ تباہی ہے اس شخص کے لیے جو سامنے لوگوں پرلعن طعن کرے اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرے جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھا اور سمجھتاہے کہ یہ مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں اس شخص کو "حطمہ"میں ڈالا جائے گا۔ اور تم کیاجانو۔ کہ "حطمہ"کیاہے وہ چکنا چور کردینے والی آگ ہے جو "دلوں "تک پہنچے گی اور ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی۔
"طعنہ زنی" پیٹھ پیچھے برائیاں صاف صاف آج کی ڈپلومیسی بھی ہے اور اس زمانے میں عرب معاشرے کی تصویر بھی۔ دوسرے جصے میں "مال"اور جمع کرکے گن گن کر رکھنے اور مال کو اپنے تحفظ کا ذریعہ سمجھنے والی بات بھی پرانے عرب معاشرے پر بھی ٹھیک بیٹھتی ہے اور آج کے سرمایہ دارانہ نظام پربھی۔ لیکن تیسری اور اہم ترین بلکہ معجزانہ بات "حطمہ" کے لفظ میں ہے۔
لسانیات کی معمولی شد بد رکھنے والوں کو بھی پتہ ہے کہ عربی صرف (ح) کو اکثر غیرعرب زبانوں میں (a) سے ادا کیا جاتا ہے جیسے ہم حکیم کو اکیم، حلوہ کو الواہ، حکومت کو اکومت اور حاجت کو آجت کہتے ہیں یہ(ح) صرف عربی میں ہے باقی کسی زبان میں بھی نہیں۔ دوسرا حرف (ط)ہے جو غیرعربی یعنی آریائی زبانوں میں (ت، ٹ)سے ادا کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر(t)ہے اب (ح) یا حطمہ کا اور (ط) کو (t)بناکر دیکھیے تو حطم یا حطمہ کا (atom) بن جاتا ہے پھر اس کے ساتھ یہ مفہوم ہیں (اللہ کی آگ) دلوں تک پہنچنے والی۔ ریزہ ریزہ کرنے والی جو عربوں کے لیے بھی قابل فہم لفظ تھا لیکن "atom" پربھی صادق آتاہے آپ کسی بھی طرح "حطم"کو کسی آریائی زبان میں ڈھالیے۔ (atom) ہی آئے گا اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جو آج کی دریافتیں۔ یا ان آٹھ سو آیات پر "غور" کرنے کا نتیجہ ہیں لیکن قرآن نے پندرہ سو سال پہلے ان کا ذکرکیاہے۔