یہ جو ہمارا پیارا راج دلارا اور ساری دنیا سے نیارا اور اب نیا نویلا پاکستان ہے، اس کے ایک کونے میں ایک "استان"ہے، گھوڑوں اور جانوروں یعنی ہارس اینڈ کپٹل کی دکان ہے، اس کا یہ نام "مستاں " اس لیے بغیر کسی سابقہ کے اس لیے رکھا گیا ہے کہ جو بھی نام اس پر چسپاں کیا جائے، وہ اس پر پھبتا ہے خوردستان، بردسستان، چورستان، احمقستان، دانشورستان کوہستان روہستان، وزیرستان، مشیرستان، حقرستان، دروغستان، صداقستان اندھیرستان اجالستان مطلب یہ کہ ہرستان۔ توسا پرستان یا سب کچھستان میں ایک محکمہ انسداد ثقافت تھا جو بہت ہی باوجاہت اور بامہارت تھا۔ چنانچہ اس نے بڑی محنت مشقت اور امانت و دیانت سے "ثقافت" کا انسداد کیا، اسے آباد برباد اور پھر زندہ باد مردہ باد کر دیا۔ اور پھر ثقافت کو عدم میں آباد کیا۔
جب کچھ بھی کام کرنے نہ کرنے کا نہیں رہا تو اس محکمے کو "شہبازگڑھ" بنا دیا، اب آپ پوچھیں گے کہ شہباز گڑھ کا مطلب کیا، تو ہم "لاالہ" نہیں کہیں گے بلکہ وہ کہاوت یا روایت یا حکایت بیان کریں گے جس کی وجہ سے "شہبازگڑھ" مشہور عالم ہے کہا جاتا ہے کہ "تھکے ہاروں کا مقام شہبازگڑھ ہے" لوگ اس کا اصل مقصد سمجھے بغیر ہر "محکمے" پر اس کا اطلاق کرتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ ہر محکمے پر شہباز گڑھ یا "تھکے ہاروں کا مقام" چسپاں نہیں کیا جا سکتا، صرف محکمہ ثقافت پر اس کا اطلاق پورے کا پورا ہوتا ہے۔ شہباز گڑھ کا قصبہ ایک تو اشوک کی لاٹ کی وجہ سے مشہور ہے، دوسری وجہ یہی "تھکے ہاروں کا مقام" یہ قصبہ مردان کے میدانی اور بونیر کے کوہستانی علاقے کے سرحد پر واقع ہے۔
"بونیر" کا توآپ کو پتہ ہو گا کہ اس میں تین چیزیں بڑی مشہور ہیں ایک "پیر بابا کا مزار، دوسرا ایلم کا پہاڑ اور تیسرے خود بونیری۔ آخرالذ کر سب سے زیادہ فیمس اس لیے ہے کہ آج کل ان میں صحافی اور شاعر بے پناہ پیدا ہوتے ہیں جو ملکی ضرورت سے فالتو ہو کر دساور کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔ تو اس زمانے میں "بونیر" کے تھکے ہارے لوگ بھی یہاں قیام کرتے تھے اور مردان کے لوگ دم لینے کو رکتے تھے، اس لیے یہ مقام تھکے ہاروں کا مقام بن گیا پھر مشہور ہوا اور پھر زبان زد عام ہو گیا۔ اور محکمہ ثقافت کا ہمنام ہو گیا۔ ہر محکمے سے تھکے ہوئے لوگوں کو "محکمہ ثقافت" میں دم لینے کے بھیجا جاتا تھا تا کہ دوسرے محکموں میں دوسرے لوگ بھی کچھ "کام" کریں یا دکھائیں اور یہ لوگ آیندہ کے لیے تازہ دم ہو جائیں، یہ سلسلہ ستر سال سے رواں دواں اور تیزتر گامزن تھا کہ
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جب "جہاں " میں جام جم نکلے
مطلب یہ کہ پھر انصاف کا دور دورہ ہو گیا۔ جس میں کچھ "غور غورہ" ہوا اور پھر "طور طورہ" یہ ہوا کہ ایک پرویز خٹک نام کے شخص نے اس محکمے کو "خواب تھکاوٹ" سے جگایا اور خدا کے سب سے زیادہ راندہ درگاہ بھولے بسرے بلکہ نیست و نابود بندگان "فنکاروں " کو پوچھنے کے کام پر لگایا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ کسی لیزی لوزر سست کاہل الوجود اور تقریباً نیست و نابود لوگوں کو اچانک جگایا جائے تو انجام یہی ہو گا۔ بلکہ وہی ہو گا۔ جو کچھوے اور خرگوش کے ریس میں خرگوش کا وہوا تھا۔ چنانچہ پھر وہی شہباز گڑھ" اور وہی تھکے ہوئے ہارے ہووں کا ڈیرہ ع
یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں
اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں
اب یہ وہی کام کر رہا ہے جو ایک اور اکادمی بھی کرتی ہے کہ سال کے کچھ خاص خاص ایام۔ یوم پاکستان یوم آزادی یوم قائد اعظم اور وغیرہ وغیرہ پر ایک "پرہجوم" اور نہایت ہی زور دار تقریب منعقد کرتی ہے۔ اس کاباپ ہمارے گاؤں کا ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا صاحب جائیداد آدمی تھا، کچھ لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ پشتو اکیڈیمی کی بک شاپ کا انور خان لالا اس کا سگا چچا زاد بھائی ہے۔ لیکن غالباً ہدایت اﷲ کے والد کی شادی شہر میں ہوئی تھی، اس لیے وہ گاؤں چھوڑ کر شہرآ گیا تھا، اس زمانے میں پشتو موسیقی میں بلند آواز گانے والے "میدانی" فنکاروں کا راج تھا، جس میں عوامی گیت وغیرہ گائے جاتے تھے۔
ہدایت اﷲ پہلا آدمی تھا جس نے دھیمی آواز اور لے میں غزل گائیکی کا آغاز کیا، ابتدا میں اس بلندآہنگ ماحول میں اسے زیادہ پزیرائی نہیں ملی لیکن پھر ہر طرف اس دھیمی گائیکی اور غزل کا دور چل پڑا اور کئی فنکاروں نے اس گائیکی میں مہارت حاصل کرنا شروع کی جن میں سب سے بڑا نام خیال محمد کا ہے جس کی کوئی مثال اب بھی نہیں ہے اور شاید کوئی اس مقام تک پہنچ بھی نہ سکے۔ لیکن بہرحال اس جدید اور مقبول ترین گائیکی میں پہلا نام ہدایت اللہ کا آتا ہے۔ اس پر اگر کوئی تقریب ہونا تھی تو اس کی شایان شان ہونا چاہیے تھی۔