یونان کا کوئی فلسفی تھا شاید اینکسی مینڈر نام تھا، کوئی اور بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری توجہ اکثر اس پر نہیں ہوتی کہ "کون کہہ رہا ہے" بلکہ اس پر ہوتی ہے کہ "کیا کہہ رہاہے" اور اس یونانی نے جو کچھ کہا تھا، وہ آج کل ہمارے سامنے "ثابت" بھی ہو رہا ہے، اس نے کہا تھا کہ آپ کسی دریا میں "دوبار" ہاتھ نہیں دھو سکتے کیونکہ دوسرے لمحے میں وہ دریا یا وہ پانی گزر چکا ہوتا ہے اور نیا دریا یا نیا پانی ہوتا ہے اور آج کل ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے، کسی بھی چیز کو ہم "دوبار" اسی "نرخ" پر نہیں خرید سکتے۔
آج گاڑی میں گیس ڈالوائی تو دوسرے دن نئی گیس اور نیا نرخ، صرف گیس ہی نہیں بلکہ آپ کوئی بھی چیز "دوبار" ایک دام میں خرید نہیں سکتے اور اس کے لیے "دوسرا دن" دوسرا گھنٹہ بھی ضروری نہیں، اسی جگہ کھڑے اگر آپ کوئی چیز کسی قیمت پر خریدتے ہیں اور پھر احساس ہوتا ہے کہ یہ چیز کم پڑے گی، کچھ اور بھی خریدنی چاہیے اور دکاندار سے آپ کہیں کہ اتنی اور دے دو تو وہ چیز تو وہی دے گا لیکن پیسے وہی نہیں لے گا کیونکہ اس کو ہاتف غیبی کی سرگوشی مل چکی ہوتی ہے۔
سب سے بڑا پرابلم اخباروں کو ہے مثلاً آج کی خبر پیٹرول کے نرخ میں چار روپے اضاٖفے کا امکان۔ یہ خبر عوام تک جب صبح پہنچتی ہے تو اس سے پہلے ان کو پانچ روپے کی بڑھوتری کی خبر نہیں بلکہ "واقعہ" پہنچ چکا ہوتا ہے، پیر و مرشد نے بھی کہا ہوا ہے کہ:
دوست غم خواری میں مری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بڑھنے تلک "ناخن" نہ بڑھ آئیں گے کیا؟
اور یہ نرخوں کے جو "ناخن" کو آئی ایم ایف نے تراش خراش کر ایسا تیزدھار بنایا ہوا ہے کہ دل و جگر تو کیا، پتھر کو بھی چیر کر دکھ دیں۔ پہلے زمانوں میں حکومت کے پاس "ناخن تدبیر" ہوا کرتے تھے جو ایک ہی جگہ ایک جیسی شکل میں ہوتے تھے لیکن اب۔ آپ نے فلموں میں تو دیکھا ہو گا کہ اچانک ڈریکولا کے دانت یا کسی بھڑ مانس کے "ناخن" ایک دم آٹومٹیکلی بڑھ جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ یہ ناخن آئی ایم ایف ہر قرضے کے ساتھ نئے نئے سائز کے دیتی ہے جو پہلے سے زیادہ ترقی دادہ اور تیز دھار ہوتے ہیں بلکہ اس میں ریزہ الماس بھی ہوتا ہے۔
نہ پوچھ نسخہ ہائے مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے
ہم تو بعض اوقات حیران ہو جاتے ہیں کہ غالبؔ کو سیکڑوں سال پہلے ان باتوں کی خبر کیسے ہو گئی تھی۔ انھیں شاید آئی ایم ایف کا نام انگریزی میں معلوم نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اسے "نسخہ مرہم" کہا ہے باقی سب کچھ وہی ہے۔ مرہم بھی اور ریزہ الماس بھی۔ خیر چھوڑیے آئی ایم ایف تو اب ہماری جان کے ساتھ ہے، اس لیے اس کے سوا جانا کہاں؟ لیکن ان نرخوں کے معاملے پر کچھ بات کرنی ہے کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ دھیرے دھیرے مارنے کے بجائے ایک دفعہ مار دیا جائے۔ اس کم بخت خدا مارے جسے بہت شو ق تھا آزادی کا جمہوریت کا اور فردوس گم گشتہ کا۔ ورنہ "سبز چشم سفید جسم" غاصبوں، ظالموں، سامراجوں اور نہ جانے کیا۔ میں اتنی رحم دلی تو تھی کہ روز روز مرے کو مارنے کے بجائے ایک دم مار دیتے تھے۔ ویسے یہ نرخوں سے مارنا تو اسے آتا ہی نہیں، یہ خالص ہماری اپنی گھریلو آزادی خود محتاری یک جہتی و سلامتی کی برکت ہے:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد "خدائے بخشندہ"
اور "خدائے بخشندہ" کو تو آپ جان ہی گئے ہوں گے۔ جس کا ایک نام رب یعنی پالن ہار بھی ہے جو قاضی الحاجاتی بھی ہے اور محی المماتی بھی۔ اور حاضر و ناظر تو یقنیاً ہے۔ ایک کہانی دُم ہلا رہی ہے، اجازت ہو تو اس بھی نمٹ لیں۔ ویسے یہ اجازت کی بھی ہم نے خوب کہی جس سے آج تک کسی نے کوئی بھی اجازت نہیں لی ہے، نہ لیتا ہے نہ لے گا۔ ان سے ہم اجازت مانگ رہے ہیں، بھلا کبھی کسی گھوڑے نے گھاس، گوالے نے بھینس سے اور حکومت نے عوام سے اجازت لی ہے؟
ہاں ایک چور کے بارے میں سنا ہے کہ جب وہ کہیں جاتا تھا تو کہتا، اے گھر، اگر اجازت ہو تو میں تم سے تھوڑی چوری کر لوں۔ اے باغ اجازت ہو تو تیرا پھل چوری کروں۔ کھیت اگر اجازت ہو تو تیرے گنے چوری کروں؟ اور پھر خاموشی بیم رضامندی کو اپنی نیم رضامندی سے ملا کر پوری کر لیتا تھا۔ لیکن وہ تو چور تھا کوئی شریف آدمی تھا جو ایسے اسٹوپڈ کام کرتا۔ کہانی لمبی نہیں ہے اس شخص کی ہے جس نے ایک بادشاہ کے لیے "شطرنج" ایجاد کی تھی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر کہا، مانگ کیا مانگتا ہے۔
اس نے کہا، بس تھوڑے سے چاول عنایت فرما دیجیے۔ بادشاہ نے حیران ہو کرکہا نہ ہیرے نہ موتی نہ سونا نہ چاندی صرف چاول؟۔ اس شخص نے کہا، میں زیادہ حریص نہیں ہوں، چاول سے گزارہ کروں گا۔ بادشاہ نے کہا، بولو کتنا چاول چاہیے، شخص نے کہا زیادہ نہیں بس شطرنج کے چونسٹھ خانوں میں سے پہلے خانے میں ایک چاول رکھ دیجیے اور اگلے خانے میں دگنے کرتے جائیے۔
اس طرح جب سلسلہ چونسٹھ ویں خانے تک پہنچا بلکہ ابھی پہنچا نہیں تھاکہ سارے ملک کا چاول ختم ہو گیا، پھر دوسرے سے مانگنا شروع کر دیا لیکن دنیا کا سارا چاول بھی تمام ہو گیا اور خانے ابھی بہت سارے باقی تھے جن میں ساری دنیا کا چاول دینا تھا۔ لیکن دیتا کہاں سے۔ حساب دانوں نے حساب لگایا ہے کہ شطرنج کے ان چونسٹھ خانوں کے لیے کروڑوں ٹن چاول بھی کم پڑ گیا تھا۔ ہمارے بھی کم ازکم اتنے وزیر تو ہوں گے ہی جتنے شطرنج کے خانے ہوتے ہیں، بلکہ اسی لیے تو شطرنج کو شاہی کھیل کہا جاتا ہے۔ آخری خبر یہ تھی کہ ان چونسٹھ خانوں کو صرف آئی ایم ایف نے بھرا تھا کیونکہ وہ جیسے جیسے اگلے خانوں میں چاول رکھتا جاتا ہے۔ پچھلے والے خانوں کا چاول لے کر اگے بڑھاتا جاتا تھا اور بڑھاتا جاتا ہے کہ یہی اس کا فن ہے۔