آپ کی ذہانت خطابت اور لیاقت پر ہمیں پورا پورا بھروسہ ہے کہ اس فقرے کا غلط مطلب نکالیں گے یعنی یا تو اسے۔ وہ، ایک گاؤں ہے۔ پڑھیں گے۔ یا وہ ایک؟ گاؤں ہے پڑھیں گے یا وہ ایک گاؤں"ہے"؟ پڑھیں گے اور یا وہ "ایک"؟ گاؤں ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں بلکہ وہ صرف ایک گاؤں ہے بلکہ ہم نے پہلے سوچا تھا کہ اسکول کے مضمون کی طرح میرا گاؤں یا ہمارا گاؤں لکھیں۔ لیکن اس پر گاؤں کے لوگوں کے ناراض ہونے کا خطرہ تھا۔ کہ آخر تم کس کھیت کی گاجر یا کیاری کی مولی ہو جو پورے گاؤں کو اپنے نام کر رہے ہو۔ گاؤں تو ہمارا ہے اور تمہاری اس میں ایک جھونپڑی ہے اور آپ نہیں جانتے کہ اس گاؤں کے لوگ جب کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو اس کا کیا حشرنشر ہوتاہے؟
جاننا ہو تو کسی دن سچ بول کر دکھائیں پھر آپ کسی کو دکھائی نہیں دیں گے۔ چنانچہ اس قسم کے خطرناک خطرات سے ڈرکر ہم نے صرف "وہ" پر اکتفاکر لیا اور یہ تو ہم بہت پہلے آپ کو بتاتے رہے ہیں "ڈر" بہت قیمتی چیز ہے۔ ڈر کو پالو ڈر کو پوسو اور ڈرکو استعمال کرو، ویسے تو اس گاؤں کے عوام کی حکومت ہے لیکن عوام چونکہ خواص کو پالنے پوسنے اور بھرنے میں بے حد مصروف رہتے ہیں، اس لیے سارا کام چند خاص خاص لوگوں کے سپرد ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے خود ہی اپنی سپردی میں لیے ہوئے ہیں اور چونکہ سب کے سب بڑے مخلص، ایماندار، دیانتدار اور صادق وامین ہیں۔
اس لیے کبھی کبھی اس "سپردگی" کہاسنی بھی ہوجاتی ہے جو پھر تو تو میں میں بدل جاتی ہے، پھر لاتوں گھونسوں اور آخر میں توپ وتفنگ تک پہنچ جاتی ہے۔ سب سے بڑی ہستی تو علامہ بریانی عرف برڈفلو کی ہے جو لوگوں کی عاقبت سنوارنے بلکہ ثواب دارین پہنچانے میں لگے رہتے ہیں جہاں فردکش ہیں اگر وہاں کا ایک بلب بھی ٹوٹ جاتا ہے تو ٹیکس کا حکم جاری کر دیتے ہیں اور یہ حکم اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی اور چیز یعنی نل یا ٹوٹنی ٹوٹ نہ جائے یا کوئی چرا نہ لے جائے اور وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے سوائے اس کے۔ اسی طرح دن رات ادویات کے حساب سے ٹیکس چلتا رہتا ہے، کبھی کبھی بیک وقت آٹھ دس ٹیکس بھی ہو جاتے ہیں جو غیر معینہ عرصے تک جاری رہتے ہیں۔
وہ کبھی کبھی اسے چندہ بھی کہہ دیتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ مفت میں نہیں کرتے بلکہ بدلے میں ان کی بسائی ہوئی الجنت کالونی اور بہشت ٹاون میں لگژری اپارٹمنٹ الاٹ کرتے ہیں اور لوگ خوشی خوشی دیتے بھی ہیں کیونکہ ان کے آرام کا سہولیات اور مراعات کا بھی خیال رکھتے ہیں اس مقام پر پہلے گھاس ہوتی تھی پھر فرش ہو گیا پھر سادہ ٹائلیں ہوگئیں اور اب "مرمر" کی سلیں ہیں جن کے اوپر پہلے صفیں تھیں، پھر دریاں ہو گئیں، پھر پلاسٹک کی اور آج کل قالین ہیں بجلی بھی وافر ہے، گیس بھی بے تحاشا ہے، پنکھے بھی ایک کی جگہ چار چار ہیں، اس لیے اکثرلوگ اپنے گھروں کے بجائے یہیں پر ڈیرے ڈالے رہتے ہیں اور نماز پڑھتے رہتے ہیں۔
دوسرا باتدبیر جس نے گاؤں کے سارے دینوی معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں چشم گل عرف قہر خداوندی عرف سوائین فلوہے۔ اس کے پانچ نہایت ہی نیک اور صالح بیٹے ہیں جن کو ایک ایک محکمہ تفویض کیاگیا ہے، بڑے کے پاس داخلہ امور کا قلمدان ہے چنانچہ وہ تمام داخلہ امور نبٹاتا ہے، لڑائی جھگڑوں کو فروغ دینا تو تو میں میں کو 307 302 تک پہنچانا پھر تھانہ کچہری کے معاملات میں لوگوں کی رہنمائی اور مدد اگر کبھی کچھ ہوتا نہیں تو اس نے ایک خصوصی فورس رکھی ہوئی ہے جو کام پیدا کرنے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔
دوسرے بیٹے کے پاس خارجہ امور ہیں، باہر سے لوگ لا کر چوریاں ڈاکے کرانا اور ہر قسم کی اشیاء لاکر گاؤں میں بیچنا اور ان سے مناسب ٹیکس لینا۔ اور پھر ان پیسوں سے عوام کے فلاح وبہود کے کام کرانا۔ اس کا تیسرا بیٹا تو پرائیوئٹ اسکول چلاتا ہے تاکہ لوگ تعلیمی جہالت کے زیور سے آراستہ ہوں اور کام نہ کرنے کاکام اچھی طرح سیکھیں اور پھر کرتے رہیں، اسکول میں ان کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہے کیونکہ اس نے اساتذہ ایسے رکھے ہوئے ہیں جو کسی نہ کسی سبجیکٹ میں اسپیشلسٹ ہیں۔ گلی کوچوں میں خواتین پر آوازیں کسنا چھیڑنا۔ یا موقع ملنے پر حملہ کرنا۔ ہر قسم کا اسلحہ، ڈانگ سے لے کر کلاشن کوف تک استعمال کرانا۔ فیشن کے اپ ٹودیٹ نسخے اور آوارہ گردی، منشیات اور جوئے وغیرہ میں مہارت دلانا، اس اسکول کے نصاب میں شامل ہے۔ خاص طور پر تعلیم برائے بیروزگاری میں تو یہ اسکول ہرسال ٹاپ کرتارہتاہے۔ چوتھا زراعت کا محکمہ سنبھالے ہوئے ہے۔
کھیتوں کھلیانوں میں فصلوں پر نظررکھنا اور پکنے پر معمولی سا معاوضہ لینا۔ مثلا گہیوں کا صرف اوپر کا تین چار انچ حصہ لے کر باقی سارا پودا کسان کو دینا۔ آلو کچالو ٹائپ کی فصلوں میں صرف "جڑوں " پر گزارا کرنا اور باقی سب کچھ کسان کو دینا۔ مکئی کی فصل میں سے بھی وہ چار انچ کا حصہ لیتے ہیں جو پودے سے الگ ہوتا ہے۔ باقی پورا پودا کسانوں کو دے دیتے ہیں، کبھی کبھی تو اگر بروقت تقسیم کا موقع نہ ملے تو مکئی کے بھٹے کا صرف اوپر اوپر کا حصہ لے کر "مغز" سارے کا سارا کسان کو دے دیتے ہیں۔ گنے کی فصل میں سے صرف پانی لے لیتے ہیں اور باقی گنا کسان کو دے دیا جاتاہے، عشروزکوۃ کا محکمہ چشم گل عرف قہرخداوندی نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور ا سے وصول کرنے کے لیے ایسا عملہ رکھا ہوا ہے۔
جنھیں صرف دیکھ کر لوگ ان کے بتائے ہوئے حساب کے مطابق عشر و زکوۃ فوراً دے دیتے ہیں۔ ارے ہاں تیسرے گاؤں کے شبھ چنتک ڈاکٹر امرود مردود کا ذکر تو ہم نے ابھی تک کیا ہی نہیں کیونکہ اس کا ذکر سب سے پہلے کرنا چاہیے تھا کیونکہ سب سے پہلی چیز صحت ہے، اگر صحت نہ ہو تو باقی سب کچھ ممکن ہی نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ علامہ بریانی اور قہرخداوندی کیاکریں گے جب لوگ صاحب فراش ہوجائیں۔ ڈاکٹرامرود مردود کے بارے میں باقی تو آپ کو علم ہی ہے کہ بارہ سال شہر کے اسپتال کے گیٹ پر امرود بیچتے بیچتے وہ ڈاکٹر بن گیا تھا۔
وہ جب دیکھتا تھا کہ لوگ اپنے دو پیروں سے چل کر آتے ہیں اور چند روز بعد بارہ (چارپائی سمیت) بارہ ٹانگوں پر سوار ہوکر جاتے ہیں تو اس نے یہ انقلابی اور کفایت شعارانہ آئیڈیا سوچا کہ "اتناسا" کام کرنے کے لیے اتنی بڑی بلڈنگوں اور تام جھام کی ضرورت کیا ہے، یہ تو میں ایک چھوٹی سی دکان میں اکیلے بھی کر سکتا ہوں اور اس نے کردکھایا۔ سب سے پہلے تو گاؤں کو کھانستے اور کراہتے ہوئے بوڑھوں اور بڑھیاوں سے چھٹکارا دلایا اور انھیں اپنے بھائی کی مدد سے انڈرگراونڈ کر دیا جو بغل میں کفن دفن کا سامان اور تیار قبریں اور تابوت بیچتاتھا۔ اس کے بعد گاؤں میں خاندانی منصوبہ کے تحت بچوں کی پیدائش اور تعداد میں کمی کاکام شروع کردیا۔
اس نے ایک نیاطریقہ علاج "بالامراض" کا طریقہ دریافت کیا ہوا ہے اور اس کا خاطر خواہ نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک کوئی بھی مریض اس پہلی بیماری سے نہیں مرا ہے جس میں مبتلا ہوکر وہ ڈاکٹر امرود مردود کے پاس گیا تھا بلکہ اس دوسری تیسری بلکہ چوتھی پانچویں بیماری سے مرا ہے جو علاج کے دوران اسے لاحق ہو جاتی تھی۔ ڈاکٹر امرود کا نعرہ ہے کہ نہ کوئی مریض رہے اور نہ مرض۔ اور اس کا بھائی اس سے پوری طرح متفق ہے جو دوائیاں بناتا ہے اور وہ بھی جو کفن دفن کا سامان اور قبریں بیچتا ہے۔