بھارت میں مسلم دشمنی یا اقلیتوں کو تنہا کرنا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانا، اس وقت ہندوتا کی سیاست کا اہم ایجنڈا ہے۔ اس کی سرپرستی بی جے پی، نریندر مودی، آر ایس ایس سمیت سخت گیر ہندو یا مسلم دشمنی کی ذہنیت رکھنے والے پر تشدد مزاج کے حامل افراد کررہے ہیں۔ انھیں حکومت بلکہ ریاستی اداروں کی بھی سرپرستی حاصل ہے۔
دہلی میں جوکھیل کھیلا گیا، مسلم آبادی کو نشانہ بنا کر پیغام دیا گیاکہ جنونی ہندو انھیں قبو ل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کوئی نیا کھیل نہیں، گذشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ دہلی میں پولیس کی سرپرستی میں سخت گیر ہندووں نے مسلمانوں کے گھر، دوکانیں، گاڑیوں کو جلایا گیا، تقریبا چھبیس کے قریب افراد کا مرنا اور مسجد کے میناروں پر ہندوتاکا جھنڈا لہرانا ایک بڑی جنگ کا منظر نامہ پیش کررہا ہے۔
دہلی کے حالیہ مسلم کش فسادات کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ اول امریکی صدر کے دورہ بھارت پر پہلے ہی مودی حکومت کافی دباو میں ہے او رمیڈیا کا براہ راست سامنا کرنے سے گریز کررہی ہے۔ دوئم ان واقعات سے قبل امریکا سمیت بہت سے عالمی اداروں سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کو اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک قرار دے چکی ہے۔ سوئم اس وقت بھارت کے مختلف شہروں میں مودی مخالفت مہم عروج پر ہے۔ چہارم امریکی صدر کی جانب سے بھار ت میں پاکستان کی تعریف اور وزیر اعظم عمران خان سے بہتر تعلقات کو بھی سخت گیر ہندووں نے اپنی شکست سے تعبیر کیا ہے۔
نریندر مودی اورآر ایس ایس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ جو کچھ بھارت میں مقبوضہ کشمیر اور شہریت بل کی بنیاد پر حکومت مخالف لہر چل رہی ہے اس میں مسلم کمیونٹی بھی پیش پیش ہے۔ اسی بنیاد پر اس وقت اقلیتوں اوربالخصوص مسلمانوں کو خاص ٹارگٹ کرکے پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ ہندوتا کو تسلیم کرے وگرنہ انھیں پرامن طو رپر نہیں رہنے دیا جائے گا۔
مودی حکومت کو سب سے زیادہ بڑا سیاسی نقصا ن اس بات پر ہورہا ہے کہ اس وقت بھارت کی داخلی سیاست جس میں مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال، انسانی حقوق کی پامالی، شہریت بل اور اقلیتوں سے جڑے مسائل صرف بھارت کی داخلی سیاست تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی آوازیں او راس پر مزاحمت یا تشویش عالمی دنیا میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ مودی حکومت کو گلہ ہے کہ بھار ت کی داخلی سیاست پر عالمی دنیا کیوں مداخلت کررہی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کا بھار ت میں بیٹھ کر مودی کے سامنے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش اور اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش عملی طور پر بھارت کے موقف کی نفی ہے۔ بہرحال جو کچھ دہلی یا دیگر علاقوں میں مسلم دشمنی کو بنیاد بنا کر جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ کسی سیاسی تنہائی کا شکار نہیں ہوگا او راس کی جھلکیاں ہمیں عالمی سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر بھارت مخالف شکل میں دیکھنے کو ملیں گی۔ جو سیاسی تقسیم مودی نے مذہب کو بنیاد بنا کر بھارت میں پیدا کی ہے اس کا عملی نقصان خود بھارت کو ہوگا۔
دہلی کے حالیہ فسادات کی ایک وجہ حالیہ دنوں میں دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بدترین شکست ہے اور جنونی ہندو اس شکست کا بدلہ بھی دہلی او رمسلم آبادی سے لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ نریندر مودی، بجرنگ دل او رآر ایس ایس دہلی میں 2002کی طرح گجرات کا منظر نامہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو ٹارگٹ کرکے بدترین تشدد اور موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ جو کچھ مودی کی سرپرستی میں ہورہا ہے وہ کوئی انہونی بات نہیں بلکہ بہت سے سیاسی پنڈت یہ بات تواتر سے کررہے تھے کہ مودی کی نفرت اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست سے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو ٹارگٹ کرکے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے گی۔
جو کچھ بھارت میں مودی، بجرنگ دل او رآر ایس ایس کی سرپرستی میں ہورہا ہے اس کے آگے بندھ کیسے باندھا جائے گا یہ ایک اہم بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ کیا بھارت کی سپریم کورٹ ازخود ان معاملات پر نوٹس لے کر مودی حکومت کی پالیسی کے خلاف کوئی اقدام اٹھائے گی یا وہ بھی سمجھوتے کی سیاست کے تحت خاموش ہوکر سخت گیر ہندو وں کو پرتشدد سیاست کے لیے کھلی چھٹی دے گی۔ اس وقت مودی کی مسلم دشمنی سیاست کو روکنے کے لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ایک بڑا کردار عالمی دنیا او ربڑی طاقتوں کا بنتا ہے کہ وہ محض زبانی مذمتی بیانات سے باہر نکل کر عملی طور پر بھارت پر دباو کی سیاست بڑھائیں اور تمام سفارتی، سیاسی اور ڈپلومیسی کے کارڈ کھیل کر بھار ت کو مجبور کرے کہ وہ اقلیتوں اور مسلم دشمنی سے گریز کرکے سب کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
نریندر مودی کی انتہا پسندی اور دیگر مذاہب کے بارے میں متعصبانہ ذہنیت اس وقت بھار ت کی داخلی سیاست کا اہم مسئلہ بن گیا ہے اور جو اس وقت بھار ت میں مودی مخالفت کی لہر چل رہی ہے جس میں ہندو بھی شامل ہیں وہ اسی نکتہ کے گرد گھوم رہی ہے۔ بھارت کی جمہوریت، آئین اور سیکولر سیاست کو عملی طور پر مودی پالیسی نے یرغمال بنادیا ہے۔ اس کے خلاف مزاحمت داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پرہوگی تو ہم کو کوئی مثبت پہلو دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ لیکن مودی سیاست کے آگے بندھ باندھنے کا کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا او رخود پاکستان کو اپنی سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر بھارت کی داخلی سیاست کو عالمی سیاست میں ننگا کرنا ہوگا کہ کیسے بھارت ہندواتہ کی سیاست کو بنیاد بنا کر اقلیتوں سمیت مسلم آبادی کو ٹارگٹ کرکے مسلم کشی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔