پاکستان پیپلز پارٹی یقینی طور پر ایک سیاسی حقیقت ہے اوراس کی سیاست، جمہوریت کے تناظر میں سیاسی جدوجہد بھی باقی جماعتوں کے مقابلے میں قابل قدر ہے۔ پاکستانی سیاست میں اگر کسی جماعت نے سب سے زیادہ سیاسی قربانیاں دی ہیں تو اس میں بھی پیپلز پارٹی کے نام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک زمانے میں پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں اپنا سیاسی اثر و نفوذ رکھتی تھی اور چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ بھی پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کے لیے لگایا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا سیاسی سفر ذوالفقارعلی بھٹو سے شروع ہوکر محترمہ بے نظیر بھٹو تک اور ان کے بعد یہ سفر آصف علی زرداری سے لے کر بلاول بھٹو تک آتا ہے۔ آج کا پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل بلاول بھٹو سے جڑا ہوا ہے اور اسی کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کا ایجنڈا بھی موجود ہے۔
پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور حقیقی جیالوں کی ایک عمومی رائے یہ تھی کہ آصف علی زرداری کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو اگر کوئی بحال کرسکتا ہے تو وہ بلاول بھٹو ہی ہوگا۔ پیپلز پارٹی کا نظریاتی ووٹر اور کارکن بلاول بھٹو سے آصف علی زرداری کی سیاست کے مقابلے میں ایک متبادل سیاست کی توقع رکھتا تھا۔
کیونکہ آصف علی زرداری کی سیاست اور سیاسی حکمت عملیوں نے پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر اقتدار تو دیا لیکن مجموعی طور پر ایک بڑی سیاسی تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک بڑی جماعت کا اندرون سندھ تک محدود ہونا پیپلز پارٹی کے تناظر میں ایک بڑا تجزیاتی سوال ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا، کیسے ہوا اوراس کے داخلی و خارجی محرکات کیا ہیں۔
بلاول بھٹو کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج آج کی سیاست میں پیپلز پارٹی کی مجموعی سیاسی ساکھ کو بحال کرنا اورخاص طور پر پنجاب کی سیاست میں اپنی اہمیت کو بڑھانا اور مقبولیت کو پیدا کرنا ہے۔ بلاول بھٹو کی سیاسی مجبوری یہ ہے کہ وہ ابھی تک آصف علی زرداری کی سیاسی قید میں ہے۔
اب بھی پیپلز پارٹی میں فیصلہ سازی کی اصل محور اور طاقت آصف علی زرداری ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اندر بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو آصف علی زرداری کو اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ساتھ سازباز اورسیاسی جوڑ توڑ کا ماہر سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اقتدار کے جاری کھیل میں نظریات سے زیادہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر جو سیاسی جوڑ توڑ ہوتا ہے اس کا ادراک بلاول بھٹو کے پاس نہیں بلکہ آصف علی زرداری ہی اس کھیل کا ٹرمپ کارڈ ہیں۔
آصف علی زرداری اور ان کے بہت سے قریبی سیاسی جوڑ توڑ کے ساتھیوں کی نظر پیپلز پارٹی کی سیاسی بحالی سے زیادہ اقتدار کے کھیل میں اپنے حصہ کے حصول تک مرکوز ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو یقینی طور پر پرجوش اور کچھ کرنے کا جنون یا شوق بھی رکھتے ہیں۔
لیکن وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی اصل سیاسی طاقت پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور پرانے ساتھیوں کے ساتھ سیاسی تشخص کی بحالی کا ہے۔ بلاول بھٹو آصف علی زرداری کی سیاست کے نقش قدم پر چل کر اقتدار کے کھیل میں کچھ لے تو سکتے ہیں، مگر پیپلز پارٹی کی بڑی سیاسی بحالی ممکن نہیں۔ بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کی بحالی کے لیے عملی طور پر آصف زرداری کی سیاست کا متبادل بیانیہ درکار ہے۔ وہ بیانیہ پیپلز پارٹی کی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں کی سیاست کو ایک نئی سیاسی طاقت یا آکسیجن فراہم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
وہ محض اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشیوں، سیاسی کردار کشی، لعن طعن اور سیاسی بڑھکیں مارنے پر اپنی سیاسی طاقت خرچ نہ کریں۔ بلاول بھٹو کا اصل کام پارٹی کی تنظیم سازی اورایسے لوگوں کو سامنے لانا ہونا چاہیے جو واقعی پیپلز پارٹی کی شاخت اورچہرہ ہیں۔ بلاول بھٹو کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی ایک مردہ گھوڑا ہے اوراس کی وجہ خود پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملیاں ہیں جس کی وجہ سے یہ صوبہ پہلے مسلم لیگ ن اوراب مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف میں تقسیم ہوگیا ہے۔
جنوبی پنجاب میں بھی ان کی سیاسی طاقت محدود ہوئی ہے اور اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی طاقت کی بحالی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بلاول بھٹو کو پنجاب میں اپنی سیاسی بحالی کے لیے نئی طرز کی غیر معمولی سیاست درکار ہے اور یہ کام روائتی سیاست کے طور طریقوں سے ممکن نہیں۔ بلاول بھٹو کو سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی میں نہ تو نیا سیاسی کارکن آرہا ہے اورنہ ہی پیپلز پارٹی سمیت بلاول بھٹو کا سیاسی بیانیہ نئی نوجوان نسل کو متاثر کرتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بلاول بھٹو خود نوجوان ہیں اور ان کی نوجوان طبقہ میں عدم مقبولیت خود ان کے لیے بھی بڑا سوال ہے۔
بلاول بھٹو کو اپنی سیاست کو مقبول کرنے کے لیے ایک بڑا موقع سندھ میں حکمرانی کے نظام میں شفافیت کو پیدا کرنا اورایک ایسا مثالی حکمرانی کا نظام وضع کرنا تھا جو پورے ملک کے لیے مثال بن سکتا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی تیسری بار تسلسل کے ساتھ حکومت میں ہے۔ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں حکمرانی کے زیادہ مواقع ہیں۔
لیکن سندھ کی حکمرانی اتنی ہی خراب ہے جتنی دیگر صوبوں کی اورکوئی ایسی حکمرانی کا نظام ہم سندھ میں نہیں دیکھ سکے جو دیگر صوبوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو متاثر کرسکے۔ مقامی حکومت کے نظام کو مفلوج کرنا بھی پیپلز پارٹی کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں۔ 18ویں ترمیم پر وفاق سے ناراضگی اپنی جگہ مگر خود سندھ میں ضلعی نظام کو اختیار دینے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں اوراس سے ان کی حکمرانی کا نظام بھی چیلنج ہوتا ہے۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اوربلاول بھٹو کو تین چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول وہ ابھی تک آصف علی زرداری کی سیاسی قید میں ہیں اور خود سے کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دوئم ان کے ساتھ بھی خوشامدیوں کا ایک بڑا ٹولہ ہے جو ان کو اصل کام کرنے کی طرف راغب کرنے کی بجائے محاذ آرائی کی سیاست میں دھکیلتا ہے۔ ان کی ساری تقرریں اوربیانات محاذ آرائی کی سیاست کے گرد گھومتی ہے۔
وہ یقیناً اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کریں لیکن پہلے اپنے گھر کا بھی جائزہ لیں کہ وہ اوران کی جماعت خود کہاں کھڑی ہے۔ سوئم ابھی تک ان کی میڈیا ٹیم یا پاکستانی میڈیا ان کو ایک متبادل کھلاڑی کے طور پر ان کے بڑے سیاسی امیج کو نہیں بنا سکا۔ ان کا بیانیہ مستقبل کی سیاست کی طرف ہوتا اور وہ موجودہ روائتی سیاست کے مقابلے میں کچھ ایسا پیش کرتے جو سب کے لیے امید کا پہلو ہوتا۔ پیپلز پارٹی کی ایک حقیقی طاقت نوجوان طبقہ، طلبہ، مزدور، کسان، اقلیتوں اور عورتوں کی تنظیمیں تھیں اوریہ ہی وہ فریق تھے جو پیپلز پارٹی کی حقیقی طاقت بھی سمجھے جاتے تھے۔
لیکن ان فریقین کو بحال کرنا اوران کو اپنے ساتھ ملانا یا ان کے لیے نئی حکمت عملی وضع کرکے ان کو اپنے لیے قابل قبول بنانا بلاول کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ بلاول بھٹو کو الجھے ہوئے سیاست دان نہیں بلکہ ایک ایسے سیاست دان کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہیے جو ریاست کے بحران کو حل کرنے کا واضح ایجنڈا اور حکمت عملی بھی رکھتا ہو اور یہ سب کچھ اس کی سیاست کے طرز عمل سے واضح نظر بھی آنا چاہیے۔ اسی طرح اب وقت ہے کہ بلاول بھٹو اگر واقعی اپنا سیاسی مستقبل بنانا چاہتے ہیں تو اپنی صفوں میں سے ایسی کالی بھیڑیں بھی باہر نکالے جن کی بنیاد پیپلز پارٹی کا ایجنڈا نہیں بلکہ وہ کرپشن اوربدعنوانی جیسی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو اگر یہ سمجھیں گے ان کی پارٹی شریفوں کی جماعت ہے تو اس سے بحران کم نہیں اور بڑھے گا۔ وہ پارٹی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں کی آوازوں کو سنیں جو ان کو بتاتے ہیں کہ کون ہے جو پارٹی کے لیے سیاسی بوجھ بن گئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ 2020ء عوامی راج اورنئے انتخابات کا سال ہے۔
اول تو اس منطق میں کوئی وزن نہیں محض جذباتی عمل ہے۔ لیکن کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ 2020ء میں نئے انتخابات ہونگے تو کیا اس صورت میں پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی نتائج 2018ء کے انتخابی نتائج سے مختلف ہونگے، ہرگز ایسا نہیں۔ 2020کے بعد بھی کہا جائے گا یہ انتخابات بھی دھاندلی زدہ تھے اور خفیہ قوتوں نے ہمیں ایک بار پھر ہروا دیا، یہ بیانیہ بار بار نہیں چلے گا اور اب بلاول بھٹو جذباتیت کے مقابلے میں سنجیدہ اور ٹھوس سیاست کریں جو پیپلز پارٹی کو سیاسی طور پر بحال کرسکے۔