کورونا وائرس سے نمٹنا ایک بڑا قومی چیلنج ہے۔ یقینی طو رپر اس چیلنج سے نمٹنے میں ریاست یا حکومت تن تنہا کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ جنگ ہمیں اگر جیتنی ہے تو ا س میں معاشرے کے تمام فریقین کو ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہ وقت سیاسی اسکورنگ، مقابلہ بازی، الزام تراشی یا ایک دوسرے پر تنقیدی تیر چلانے کا نہیں۔ اگر ہم مثبت انداز میں جس بھی سطح پر موجود ہیں او رجتنا کچھ کرسکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے، یہ ہمارا قومی فریضہ، ذمے داری اورحق بھی ہے۔ پاکستان خوش قسمتی سے ان معاشروں میں آتا ہے جہاں آبادی کا سب سے بڑا گروپ نوجوانوں لوگوں پر مشتمل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بطور ریاست، حکومت، اداروں یا معاشرہ ان نوجوانوں کو ایک بڑی جنگ میں کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔
اس وقت کیونکہ پورا ملک کسی نہ کسی شکل میں لاک ڈاون ہے۔ ایسے میں دیگر طبقات کی طرح نوجوان بھی گھروں یا محلوں تک محدود ہو گئے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دونوں سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں دیگر طبقات کے مقابلے میں کا م کرنے کاجذبہ، لگن، شوق اور محنت زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی جب بھی ہمیں مختلف قومی بحرانوں مثلا سیلاب، زلزلہ یا کوئی دیگر آفات کا سامنا کرنا پڑا تو یہ ہی نوجوان طبقہ قومی خدمت کے جذبہ کے ساتھ ہمیں عملی میدان میں کام کرتا ہوا نظر آیا۔
موجودہ صورتحال میں اگر ہم نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو متحرک کرنا ہے تو ہمیں چند بنیادی پہلووں پر توجہ دینی ہوگی۔ اول یہ نوجوان مالی وسائل تو نہیں رکھتے مگر مالی وسائل کو جمع کرنے یا اس سے راشن اکھٹا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ نوجوانوں کا حق بنتا ہے کہ وہ اس مشکل مرحلے میں اپنے اپنے علاقوں میں وسائل، پیسے یا اشیا کی صورت میں جمع کریں، برا ہ راست مخیر حضرات سے رابطہ کرکے ان افراد کی مقامی سطح پر نشاندہی کریں جو واقعی ضرورت مند ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں لوگوں کی مدد کرنے کا حسن او رجذبہ موجود ہے۔ جب آپ عملی طور پر محلہ یا علاقے کی سطح پر سرگرم کام کرتے ہوئے نظرآئیں گے توبہت سے لوگ اس نیک کام میں حصہ ڈالیں گے۔
یہ نوجوانوں کا ہی مقامی سطح پر کام بنتا ہے کہ وہ اس عمل کی نگرانی کریں کہ محلہ یا علاقے کی سطح پر اب تک کس گھر میں امداد چلی گئی ہے او رکون ایسے ہیں جو ابھی تک اپنی سفید پوشی کی وجہ سے محروم ہیں۔ نگرانی کی شفافیت کا یہ عمل ان لوگوں تک بھی امداد کو پہنچانے کا کام کرسکے گا جو واقعی ضرورت مند ہیں، مگر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح مقامی نوجوان ان مقامی سماجی تنظیموں، اداروں، کاروباری طبقات، مخیر حضرات، سیاسی نمائندوں یا جماعتوں کے بھی کام کی نگرانی کریں کہ اگر وہ کچھ امداد کی صور ت میں کررہے ہیں کیا ان کا عمل عملا شفاف ہے۔ اسی طرح وہ ان تما م اہم لوگوں یا ادروں تک ان لوگوں کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں جو ضرورت مند ہیں تاکہ ان کی مدد سے وہ لوگ بھی مستفید ہوسکیں۔ اس بات کا خاص دھیان رکھاجائے کہ امداد کے معاملے میں ہر طرح کے سیاسی، سماجی، برداری، فرقہ، علاقہ یا مذہب کے تعصب سے آزاد ہوکر مدد کی جائے۔
معاشی لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں میں ایک غیر یقینی، ڈر اور خو ف کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو خود بھی امید کا دامن نہیں چھوڑنا اور دوسروں کو بھی یہ ترغیب دینی ہے کہ ہمیں مل کر اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم ان لوگوں کی نشاندہی کریں جو بلاوجہ لوگوں میں خوف کو پیدا کرکے ایک غیر یقینی پیدا کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں ہمیں نوجوانوں کی سطح پر بھی معلومات کے تبادلہ کے تناظر میں ایک بڑی غیر ذمے داری، غیر سنجیدگی او رماتم کی کیفیت نظر آتی ہے۔ یہ بیانیہ پیش کیا جارہا ہے کہ کچھ نہیں ہورہا حالانکہ اس وقت ہر سطح پر بہت کچھ اچھا بھی ہورہا ہے۔
اسی طرح جو نوجوان پڑھے لکھے ہیں ان کومقامی سطح پر لوگوں کو کورونا وائرس جیسے مرض کی آگاہی دینی چاہیے اورجو بھی حکومت پاکستان یا عالمی ادارہ صحت کی معلومات یا گائڈ لائن ہیں اس کو بنیاد بنا کر ہم ایک بڑی سماجی مہم شروع کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حفاظتی اقدامات حکومت ڈنڈے کے زورپر نہیں کرسکتی۔ ہمیں ایسی بہت سی شکایات مل رہی ہیں جہاں لوگ حفاظتی اقدامات اور نقل و حمل کے تناظر میں حکومتی اقدامات پر عمل نہیں کررہے یا کورونا جیسے مرض کے بارے میں ان کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ سماجی آگاہی کے لیے نوجوان سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں۔
اگرچہ ان دنوں میں نوجوان لڑکیوں کی سماجی نقل و حمل بہت مشکل ہے اور وہ زیادہ تر گھرو ں تک ہی محدود ہیں۔ لیکن ان کا بھی جہاں رابطہ ہوتا ہے یا کسی سے ملاقات یا بات چیت ہوتی ہے تو وہ عورتو ں میں بھی آگاہی مہم کو چلاسکتی ہیں۔ متوسط یا خوشحا ل طبقہ کی نوجوان لڑکیاں خود بھی او راپنے گھروں کے بڑوں کو متحرک کرسکتی ہیں کہ وہ کمزور یا غریب لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ خاص طور پر جو گھریلو ملازمہ تھیں یا جو کچھ وقت کے لیے آپ کے گھر کاکام کرتی تھیں میں سے بیشتر کو کاموں سے فارغ کردیا گیا ہے، ان کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ نوجوانوں کی سطح پر لڑکوں او رلڑکیوں کو گلی محلہ کی درست صفائی اور خود کو صاف رکھنے کے حوالے سے بھی آگاہی مہم چلانی چاہیے تاکہ ہم بھی او رہمارا علاقہ بھی مختلف بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔ اسی طرح لوگو ں میں یہ آگاہی بھی دینی چاہیے کہ اگر ان کے اردگرد کو ئی کورونا مریض سامنے آئے تو اس سے گھبرانے کی بجائے اس سے بہتر سلوک کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا کہ اب وہ قابل رحم ہے او ر اس کی بیماری پر خود کو خوف میں مبتلا کرکے اسے یہ احسا س دینا کہ وہ بڑا بوجھ ہے، درست حکمت عملی نہیں۔
اسی طرح سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا میں ایسے انفرادی یا گرو پ یا اداروں کی سطح پر لوگ نظر آرہے ہیں جو لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان سے اپنی رابطہ کاری کو بڑھانا ہوگا او ران کی مدد سے اپنے علاقوں کے لوگوں کی مد دکرنا ہوگی۔ کیونکہ ہمیں بعض اوقات پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سے حکومتی یا غیر حکومتی ادارے ہیں جو لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنی معلومات اورنگرانی کے عمل کو بھی موثر بنانا اور خود کو بھی باخبر رکھنا ہوگا۔ یہ بھی سیکھنا ہوگا کہ آج کی گلوبل دنیا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جو اہم اقدامات ہورہے ان سے سیکھ کر اپنے لیے بھی اصلاح کے پہلو پیدا کرنے چاہیے۔
یہ کام بھی نوجوانوں کو کرنا چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر اپنی قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان، مقامی نمائندے، حکومتی او رانتظامی اداروں کو بھی خود متحرک کریں کہ وہ ایک ذمے داری کا کردار ادا کریں۔ ان کی نگرانی اور جوابدہی کے نظام کو بھی مضبوط بنایا جائے کہ جب لوگ مشکل میں ہیں تو ان سیاسی و حکومتی فریقین کو توسب سے پہلے لوگوں میں موجود ہونا چاہیے۔ حکومتوں پر دباو اس انداز سے ڈالنا چاہیے کہ ان کے کام بھی نظر آئیں او راس میں کمزور طبقہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مراعات شامل ہوں۔