سوچتاہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے
لوگ رخصت ہوئے او ر لوگ بھی کیسے کیسے
پاکستانی صحافت کے استادوں کے استاد، ممتاز دانشور، تجزیہ نگار، مصنف، میڈیا کی تعلیم میں نئی سے نئی جہتوں کو متعارف کرانے والے عظیم راہنما ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بھی رب کے حضور پیش ہوگئے۔ کمال کے فرد تھے، اپنی ذات میں ایک انجمن او رادارہ۔ کوئی پچیس برسوں پر محیط تعلق تھا اور تعلق بھی ایسا جو ایک بھائی، استاد، دوست، سہیلی سمیت راہنما کا تھا۔ ہمیشہ آگے بڑھنے کے حوالے سے نہ صرف راہنمائی کرتے بلکہ حوصلہ بھی بڑھاتے اور کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے مواقع بھی پیش کرتے تھے۔
مجھے یہ اعتراف ہے کہ میں نے زندگی میں جو کچھ سیکھا ان میں بڑا کردار ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا تھا۔ نئے خیالات، سوچ، فکر اور دنیا میں میڈیا سمیت سیاسی و سماجی محاذ پر ہونے والی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر تھی۔ جو بحثیں عالمی میڈیا کے محاذ پر ہوتی تو وہ ہمیں ان مباحث کا حصہ بناتے۔ طالب علموں اور صحافیوں کی تربیت کے لیے تواتر کے ساتھ سیمینار، مزاکرے، مجالس، مشاورتی اجلاس، مکالمہ اور کانفرسوں کا خوب اہتمام کرتے۔ لاہور کے معروف اہل دانش کو قطع نظر ان کے خیالات او ر فکر کے ان سب کو وہ مہمان مقرر کے طور پر بلاتے تھے۔
گومل یونیورسٹی ہو یا جامعہ پنجاب جہاں اپنی زندگی کی کئی دہائیاں گزار دی او ر یہ ہی جامعہ پنجاب ان کی محبت کی حیثیت رکھتی تھی او راس کی دردیوار سے ان کو عشق بھی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سکون نہ آیا تو نئے تجربات کے لیے نجی تعلیمی اداروں میں نئے نئے تجربے کیے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کو ایک عملی انسٹی ٹیویٹ بنانا ان کا خواب تھا اور یہ خواب اپنے ہی ہاتھوں سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ایک روائتی استاد تھے او رنہ ہی محض نصابی کتابوں تک محدود رہ کر تعلیم دیتے تھے بلکہ جدید بنیادوں پر تعلیم دیتے تھے۔ ہزاروں طالب علم جو میڈیا یا دیگر اداروں میں ملکی یا غیر ملکی سطح پر اہم پوسٹوں پر ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ہیں۔
1976سے گومل یونیورسٹی سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر مغیث الدین کبھی ریٹائر نہیں ہوئے، اپنی زندگی کے آخری سانس تک مختلف انتظامی عہدوں کے باوجود درس تدریس سے وابستہ رہے۔ ان کی شخصیت محض پاکستان تک محدود نہ تھی بلکہ وہ عالمی شخصیت تھے اور باہر کی یونیورسٹیوں میں بھی لیکچر دیتے تھے۔ 2006 میں اقوام متحدہ نے ان کی شاندار خدمات پر ایک ایوارڈسے نوازا، جب کہ ہائر ایجوکیشن نے 2003میں ان کو بہترین استاد کا اعزاز دیا۔ کئی عالمی او رملکی اداروں میں وہ بورڈ ممبر ز بھی تھے۔ اسی طرح جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ آف آئیو اسٹیٹ امریکا سے بھی نوازا گیا تھا۔
ڈاکٹر مغیث شیخ ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے او رجو بھی ان کے پاس آیا کچھ نہ کچھ لے کر ہی گیا۔ دو سال قبل انھوں نے اپنی سوانح عمری" ہنستی مسکراتی زندگی " کے نام سے لکھی اور اپنے تمام تجربات و مشاہدات کو لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ وہ اپنے اصولوں پر کم ہی سمجھوتہ کرتے تھے۔ ایک درویش صفت انسان جس کے دل میں پاکستان سے بے پناہ محبت تھی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے منفی تشخص سے فکر مند بھی رہتے تھے او ران کے بقول میڈیا کی جنگ میں ہم بہت پیچھے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا یونیورسٹی ان کا خواب تھا، جو ریاستی، حکومتی اور میڈیا سے جڑ ے بڑے افراد یا اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔ عملا ایک نظریاتی فرد تھے جو کسی اصول اور نظریے کو بنیاد بنا کر میڈیا کی سمت درست کرنا چاہتے تھے، مگر وسائل کی عدم موجودگی ان کا بڑا مسئلہ تھا۔ اگر ان کو انداز ہ ہوتا کہ کوئی ان کا دوست مالی طور پر پریشان ہے تو اس کو بلاتے اور کچھ نہ کچھ اس کے لیے عملی موقع فراہم کرتے۔
ڈاکٹر مغیث کے ساتھ اپنے تعلق پر ہمیشہ فخر تھا اورہمیشہ رہے گا کہ ان سے تعلق دوستی میں تبدیل ہوا۔ صحافتی تعلیم میں آنے سے پہلے وہ عملی صحافت کا حصہ بنے تھے اورمیرے مرحوم والد عبدالکریم عابد کے ساتھ انھوں نے کا م بھی کیا۔ ان کو صحافت کی تعلیم کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے اور ان کی حیثیت صحافتی تعلیم میں ایڈورڈ سعید او ر نوم چومسکی سے کم نہ تھی۔ وہ لوگ بھی جو ڈاکٹر صاحب کے نظریات سے اتفاق نہیں بھی کرتے تھے وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان سے بڑا میڈیا کا استاد کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
ان کے انتقال پر تنویر شہزاد نے اپنے کالم کی اچھی سرخی دی کہ " خبروں کا گّر سکھانے والے ڈاکٹر مغیث خود خبر بن گئے۔" اب میرا تنویر شہزاد، سلمان غنی اور تاثیر مصطفے یا احمد شیخ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر مغیث کی مجالس کو کیسے بھول سکیں گے اور کون ہمیں اسی انداز میں بلایا کرے گا جیسے وہ ہمیں دعوت دیتے تھے۔ کئی دہائیوں تک جامعہ پنجاب میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر مغیث کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کو پاکستان کے اعلی سول اعزاز سے نوازا جائے اور جامعہ پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر نیاز احمد اختر ان کے لیے میڈیا انسٹی ٹیوٹ میں ان کے نام سے چیئر او رایک بلاک مختص کردیں تو یہ ان کی خدمات کا بڑا اعتراف ہوگا۔
ہماری ایک اچھی استاد دوست منیبہ افتخارجو لاہور کالج میں میڈیا کی درس وتدریس سے وابستہ ہیں، انھوں نے چند اشعار ڈاکٹر مغیث پر کہے ہیں جو آپ کی نذر ہیں۔
یہ تود کھ ہے کہ نہیں ہو تم
گماں ہے پاس نہیں ہو تم
تم سے اب رشتہ دعا تک سہی
کہ پہنچے جہاں کے مکیں ہو تم
کہاں سے لائیں گوھر زریں
وہ نایاب گوشہ نشیں ہو تم
تمام ہوا اعلی عہد مغیث
نہ ہوئی پّر جووہ کمی ہو تم