پاکستان بطور ریاست یا معاشرہ جن بڑے سنگین مسائل سے دوچار ہے ان میں ایک بڑا بنیادی مسئلہ انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کا پیدا ہونا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بطور ریاست ہم اس مسئلہ کی سنگینی کا شکار ہیں۔ اس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ماضی میں موجود حکومتی پالیسیوں کا بھی بہت زیادہ عمل دخل تھا جس کی ہمیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ اس فرقہ واریت کے کھیل نے لوگوں کو نہ صرف مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا بلکہ ان میں مذہبی منافرت اور تشدد کے ماحول کو بھی جنم دیا۔
پاکستان نے بطور ریاست اس مذہبی انتہا پسندی اور بالخصوص فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے کچھ بڑے اقدامات اٹھائے ان میں بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان سمیت پیغام پاکستان جیسی اہم دستاویزات تھیں۔ یہ دونوں اہم دستاویزات انتہا پسندی اور مذہبی فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے ایک قومی نصاب یا کنجی کی حیثیت رکھتی تھیں۔ 26مئی 2017 کو ریاست پاکستان نے ممتاز اور جید علمائے کرام کی مدد سے دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ایک متفقہ فتویٰ اور متفقہ اعلامیہ جاری کیا۔
اس وقت کے صدر مملکت ممنون حسین کی قیادت میں جاری ہونے والا یہ بیانیہ عملا ایک قومی اور مذہبی ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے پوری دنیا کو ایک واضح پیغام دیا کہ علما ہر قسم کی خون ریزی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ یہ متفقہ فتویٰ اور اعلامیہ آگے چل کر قومی بیانیہ "پیغام پاکستان "کا حصہ بنا جسے 16جنوری 2018 کو جاری کیا گیا۔ 1829ملک کے جید علمائے کرام اور مفتیان نے اس بیانیہ کی توثیق کی اور تقریباً 5000ہزار سے زائد معروف پاکستانی اہل قلم، علما، سیاسی راہنما اور سول سوسائٹی کے اراکین عملی طور پر " پیغام پاکستان " کی توثیق کرچکے ہیں۔
لیکن گزشتہ دوبرسوں سے عملی طور پر ریاست پاکستان، حکمران طبقات، علمائے کرام، مذہبی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی سے جڑے فریقین کو اس قومی بیانیہ پر جو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے تھی اس کا بڑا فقدان نظر آتا ہے۔ ایک بڑی وجہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی تقسیم سمیت حکومت اور حزب اختلاف میں بد اعتمادی کی فضا ہے۔ اس کام کے لیے ایک بڑی سیاسی اور مذہبی قیادت چاہے وہ حکومت میں ہو یا حزب اختلاف ہونی چاہیے تھی اس کا واضح فقدان نظر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر ہمیں قومی سطح پر فرقہ واریت کا کھیل دوبارہ مسائل پیدا کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ایک بار پھر حکومت فرقہ واریت کی حالیہ لہر میں پریشان نظر آتی ہے۔ اس اہم قومی بیانیہ یعنی پیغام پاکستان کے بارے میں لوگوں کا سیاسی، سماجی اور مذہبی شعور بہت کم ہے اور ان کو معلومات ہی نہیں کہ اہم دستاویز کیا ہے اور ہمیں کیسے اس کو موثر بنانا ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایجنڈے یا ان کی سیاسی ترجیحات میں بھی پیغام پاکستان بہت پیچھے نظر آتا ہے۔ اس پیغام پاکستان کے پھیلاؤ یا اس بیانیہ کو ایک بڑی سیاسی و مذہبی تحریک میں بدلنے میں ہم وہ کچھ نہیں کرسکے جو قومی ضرورت بنتا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیغام پاکستان کیا ہے اور اس میں ایسی کونسی چیزیں ہیں جو فرقہ واریت کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ پیغام پاکستان کی روشنی میں فرقہ واریت کے خاتمہ میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی مدد سے ایک 20نکاتی کوڈ آف کنڈکٹ بھی ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اس پر عملدرآمد کے نظام کو موثر نگرانی سمیت جوابدہی کے نظام سے گزارا جائے۔
ان میں جو اہم نکات موجود ہیں ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنا، ہر سطح پر ریاست کی عزت و تکریم کرنا اور وفاداری کو نبھانا ہوگا، تمام شہری دستور پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں ان میں سماجی اور سیاسی حقوق، مساوات، اظہا رخیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی، شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد شامل ہیں۔
اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر اور طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد، انتشارکی تمام صورتوں کو بغاوت سمجھا جائے گا، اور ضرب عضب اور ردالفسادکی حمایت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ریاست پاکستان کی حمایت لازم ہے، ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں سے دور رہے، کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبری بنیاد پر اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے۔
کوئی بھی مذہبی، سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے، نفرت انگیزی، انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ سے گریز کرے اور جو لوگ اس عمل کا حصہ بنیں ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے، کسی بھی فرقہ یا گروہ کے مذہبی عقائد کے خلاف کچھ نہ کہا جائے۔
دہشت گردی کو فروغ نہ دیا جائے، تعلیمی نصاب میں اختلاف رائے کے آداب کو شامل کیا جائے، غیرمسلم افراد کو اپنے مذہب اور رسومات کی ادائیگی کی آزادی دی جائے، عورتوں کے حقوق کو تحفظ دیا جائے، غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے، مذہبی منافرت پر مبنی تقریروں پر پابندی، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو سے گریز، میڈیا پر ایسے پروگراموں سے گریز کیا جائے جو فرقہ وارانہ عمل کا سبب بنے۔
پاکستانی حکومت، سیاسی و مذہبی جماعتوں سمیت سب کو اس فکر پر غور کرنا چاہیے کہ کیسے ہم قومی سطح پر " پیغام پاکستان " کے بیانیہ کو فروغ دے سکتے ہیں اور کیسے اس کی تشہیر تعلیمی ادارہ کی سطح سمیت قومی مباحثہ کا حصہ بنے۔ یہ کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب تمام فریقین اس پیغام پاکستان کی قیادت کریں اور اس قومی نصاب کی ترویج اور اس پر عملدرآمد کو اپنی قومی اور بنیادی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ چاروں صوبائی وزرائے اعلی، گورنرز اور اہم قومی اداروں کے سربراہان کے ساتھ بیٹھ کر اس پیغام پاکستان پر عمل درآمد کے نظام کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دیں۔ اس کی نگرانی، جوابدہی کا نظام موثر اور شفاف ہو اور خاص طور پر جو لوگ بھی اس عمل میں مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں ان کے خلاف ریاست کی رٹ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تب ہی ہم بطور ریاست اس بڑے بحران سے خود کو بچا بھی سکیں گے اور بہتر طور پر نمٹ بھی سکیں گے۔