Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Imran Khan Ki Hukumat Ka Mustaqbil

    Imran Khan Ki Hukumat Ka Mustaqbil

    وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے عمران خان کی حکومت اپنی سیاسی مدت پوری نہ کرسکے او رملک نئے انتخابات کی طرف گامزن ہوسکے۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر تمام حزب اختلاف کی جماعتیں دو نکاتی بیانیہ پر توجہ دے رہی ہیں۔

    اول عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے او ر ملک شدید ترین سیاسی، انتظامی او رمالی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ دوئم اس موجووہ بحران کا واحد حل نئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں۔ لیکن ان دونوں نکتوں پر حزب اختلاف کی جماعتیں کوئی بڑی تحریک چلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم محض سیاسی دباؤ یا میڈیا میں دباو ڈال کر حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ یا تو خود مستعفی ہوجائے یا ان کے بقول سلیکٹرز خود حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کرلے تاکہ نئے انتخابات ہوسکیں۔

    پاکستان کی سیاست کے بڑے سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے بھی تواتر کے ساتھ یہ پیش گوئی پہلے بھی کی تھی اوراب بھی کررہے ہیں کہ عمران خان کی حکومت جانے والی ہے۔ بالخصوص ایک نکتہ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے اسٹیبلیشمنٹ مایوس ہوچکی ہے۔ حکومت کے گھر بھیجنے کے معاملے میں ان کے بقول جو تاخیر ہے اس کی وجہ عمران خان کے سیاسی متبادل پر اتفاق نہیں ہے۔ ایک منطق یہ بھی دی جاتی ہے پس پردہ قوتوں نے شہباز شریف اورچوہدری پرویز الٰہی کی صورت میں مرکز اورپنجاب کی قیادت کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    ان ساری خواہشات اورتجزیوں کی موجودگی میں عمران خان اپنی حکومت کے تیسرے برس میں داخل ہوگئے ہیں۔ حکومت کے اتحادی جماعتوں کے بارے میں یہ خبریں پھیلائی گئی کہ وہ عمران خان سے نالاں ہوگئے ہیں او رمتبادل راستے کی تلاش میں ہیں۔ کیونکہ عمران خان کے اقتدار کا انحصار ان ہی اتحادی جماعتوں سے جڑا ہوا ہے۔ ایک منطق یہ بھی دی گئی کہ کچھ دوست مسلم لیگ ن اورمسلم لیگ ق کے درمیان تلخیوں کو ختم کرکے ایک جماعت بنانا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل کی حکمرانی کے نقشہ کو تیار کیا جاسکے۔

    عمران خان کی حکومت کو ایک بڑا سیاسی ایڈونٹیج یہ بھی ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین بڑی تحریک چلانے کی یا تو صلاحیت نہیں رکھتے یا ان کی سیاسی طاقت کم ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے بھی پیدا نہیں ہوسکا۔ ان ہاوس تبدیلی، وزیر اعظم پر دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر مجبور کرنا، عوامی تحریک کا چلنا، اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے کوئی بھی کارگر نہیں ہوسکا۔

    یہ کہنا بجا ہوگا کہ عمران خان نے ایک مضبوط حزب اختلاف او رتجربہ کار سیاست دانوں کو واقعی ایک مشکل صورتحال میں ڈال کر بے بس کیا ہوا ہے۔ حالانکہ عمران خان نے بہت سی ایسی غلطیاں اپنی حکمرانی کے نظام میں کی تھیں جسے بنیاد بنا کر حزب اختلاف بڑا بحران پیدا کرسکتی تھی، لیکن کچھ نہ کرسکی۔ اب حالت یہ ہے کہ حزب اختلاف میں ہم ایک واضح تقسیم دیکھ سکتے ہیں۔

    مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن سے مایوس ہوکر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل نئی حزب اختلاف کی تشکیل کرنے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اتنے زیادہ سیاسی معصوم بننے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھوں نے اسلام آباد کا سیاسی دھرنا اسی بنیاد پر ختم کیا تھا کہ ان کو کچھ قوتوں نے یقین دلایا تھا کہ حکومت مارچ میں نہیں رہے گی۔ وہ کون لوگ تھے، خود ایک بڑا سوال ہے۔ حزب اختلاف او رسیاسی و صحافتی پنڈتوں کو اس محاذ پر بھی فی الحال ناکامی کا سامنا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ٹکراو پیدا کیا جاسکے۔

    عمران خان حکومت اوراسٹیبلیشمنٹ کے درمیان کافی بہتر تعلقات ہیں۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاسی تبدیلی کا عمل طاقت کے مراکز کے درمیان ٹکراو کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نکتہ پر حزب اختلاف کی ناکامی نے انھیں سیاسی طور پر تنہا بھی کیا ہے۔ حزب اختلاف کا یہ بیانیہ بھی کافی حد تک کمزور ہوا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں میں ایسے افراد یا گروہ کی کمی نہیں جو دن میں جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں اور رات کی سیاہی میں طاقتوروں کو اپنی وفاداری کا عملی یقین دلاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانی کے نظام میں عمران خان کی حکومت بھی کوئی ایسی حکومت نہیں جہاں سب اچھا ہے۔

    حکمرانی کا بحران ہمیشہ سے ہی رہا ہے۔ فوجی یا سیاسی حکمران دونوں کی حکمرانی کے نظام میں عام آدمی کو کوئی فائدہ یا ریلیف نہیں ملا۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو چار محاذوں پر سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول احتساب کامنصفانہ اور شفاف نظام سمیت بے لاگ احتساب، معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرنا، ادارہ جاتی اصلاحات اور گورننس کے بحران جس میں ایک بڑا تعلق عام آدمی کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ کورونا بحران، چینی، آٹا، پٹرول او ربجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے بارے میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

    لیکن اب ملکی صورتحال کچھ بدلی ہے۔ اگر صورتحال بہت بہتر نہیں تو بہت بری بھی نہیں او رکچھ معاشی اشاریے مثبت بنیادوں پر دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ اصلاحات کا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پولیس، ادار ہ جاتی، ایف بی آر، بیوروکریسی، معاشی اور سیاسی اصلاحات سمیت احتساب کے معاملے میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عمران خان کی کامیابی ان ہی بڑی اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔

    یہ ہی وجہ کہ بہت سے لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان کو بڑا خطرہ حزب اختلاف کی جماعتوں یا میڈیا سے نہیں بلکہ خود اپنی جماعت اورحکمرانی کے نظام سے ہے۔ لوگوں میں بہت زیادہ توقعات عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بڑھا دی تھیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی حکمرانی کو ان ہی بڑے بڑے سیاسی نعروں، دعووں سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کی حکمرانی کو چیلنج کرتے ہیں۔ لیکن جو ہماری علاقائی اور عالمی سیاست ہے اس کے تناظر میں عمران خان کی حکومت فی الحال کہیں نہیں جارہی۔