مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا مقدمہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا بھر میں مزاحمت ہو رہی ہے۔ بھارت کے یوم آزادی پر یوم سیاہ منایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی حکومت کے خلاف جو آوازیں اٹھیں ان میں خود بھارت بھی شامل تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری سیاسی جدوجہد نے ایک عالمی سیاسی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں کی 2017-19ء جاری کردہ رپورٹس میں واضح طورپر تسلیم کیا گیا کہ بھارت کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی پامالی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان رپورٹس نے عالمی دنیا میں انسانی حقوق سے جڑے اداروں، پارلیمنٹ میں موجود ممبران، میڈیا اور عوامی رائے عامہ پیدا کرنے والے عناصر کو مجبور کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق سے جڑی پامالی پر خاموش رہنے کے بجائے اپنی آواز اٹھائیں۔
مودی حکومت کی سب سے بڑ ی سیاسی پسپائی یہ ہی ہے کہ اس کا مقدمہ اب دنیا سننے کو تیار نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی ایک ایسا بنیادی نکتہ ہے جس پر عالمی دنیا کی حمایت حاصل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ پاکستان سیاسی اور سفارتی محاذ پر جو بڑی ڈپلومیسی کی جنگ مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں لڑنے کی جو کوشش کررہا ہے اس میں بھی ایک بنیادی نکتہ انسانی حقوق کی پامالی کا ہے۔ بچے، بچیاں، نوجوان، عورتوں اور بوڑھوں کے ساتھ جو کچھ بھارت کشمیر میں کر رہا ہے وہ دنیا کا ضمیر جنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ عملی طور پر بھارت کی ریاست نے مقبوضہ کشمیر میں سخت مارشل لا نافذ کردیا ہے ا ور کوئی رعائت دینے کے لیے تیار نہیں۔ سید علی گیلانی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کشمیروں کی نسل کشی کا منصوبہ رکھتا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے بقول اگر عالمی دنیا نے اس اہم او رنازک مرحلہ پر اپنا کردار ادا نہ کیا توکیا وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی نسل کشی دیکھتی رہے گی۔
مسئلہ محض پاکستان کے موقف کا نہیں بلکہ عالمی دنیا سے جڑا میڈیا اورانسانی حقوق سے وابستہ اداروں کی اپنی رپورٹس بتارہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا معاملہ کتنا سنگین نوعیت کا ہے۔ اس موقع پر کشمیروں میں اور زیادہ شدت پیدا کرنے یا ان میں نفرت یا بغاوت کو پیدا کرنے کے بجائے ان کا ہاتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر مقبوضہ کشمیر میں جاری یہ ظلم و ستم ختم نہ ہوا تو وہاں سے جو آگ اٹھے گی اس کو روکنا بھارت سمیت کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا اور اس صورتحال کی ذمے داری بھی عالمی دنیا کی خاموشی پر ہوگی۔ انسانی حقوق کی پامالی کا عمل اس وقت سامنے آتا ہے جب آپ لوگوں کے بنیادی سیاسی اور سماجی حقوق دینے سے انکار کردیں اور حقوق کا مطالبہ کرنے پر سیاسی انداز کے بجائے طاقت او ربندوق کا استعمال کرکے اس آواز کو دبانے کی کوشش کریں۔ یہ ہی کچھ اس وقت بھارت میں ہورہا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا او ربھارتی اقدامات کو کشمیریوں کی حمایت حاصل ہوتی تو وہاں عملا مارشل لا نہ ہوتا۔
بھارت کی معروف انسانی حقوق کی عالمی رہنما ارون دتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر چار اہم نکات اٹھائے ہیں جو قابل غور ہیں۔ اول وادی کشمیر کو بھارت کی ریاستی اقدامات نے ابوجیل بنادیا گیا ہے او راگر وادی سے تشدد پھوٹا تو تشدد کی یہ لہر ملک کے چاروں اطراف پھیلے گی۔ دوئم مودی حکومت کے حالیہ اقدامات نے بارود کے ڈھیر میں ایک ایسی چنگاری بھڑکادی ہے جو وہاں کے پرامن سیاسی حل کے خلاف ہے۔ سوئم بی جے پی اور آرایس ایس ہر گزرتے دن کے ساتھ اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرے گی او رجلد ہی یہ اس مقام پر پہنچ جائے گی جہاں یہ خود ریاست بن جائے گی۔ چہارم مودی حکومت کے اقدامات بڑی تیزی سے بھارت میں ہندواتہ کی سیاست او رمقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے نتیجے میں بھارتی ریاست پر گھمبیر اثرات او ربھارتی ریاستی پالیسیوں میں ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے اثرورسوخ سیکولر ریاست کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ پنجم مودی حکومت کی کوشش ہوگی وہ اپنی انتہا پسند پالیسیوں کو بنیاد بنا کر معاشرے کے لبرل، سیکولر او ر دانشور طبقہ کو بے دخل کرکے دیوار سے لگائے۔
عالمی میڈیا میں بھی مودی اقدامات کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ عالمی دنیا کے میڈیا نے نریندر مودی کو بھارت کا ہٹلر قرار دیا ہے او ران کے بقول مودی کے اقدامات کو بھارت کو تقسیم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں او رمودی کو بھارت کے انتہا پسندوں کا سرغنہ بھی کہا گیا ہے۔ اگرچہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حالیہ اقدامات کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے، لیکن انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر کوئی اسے اندرونی مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہیں اور سب بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور لوگوں کو وہ بنیادی حقوق فراہم کرے جو بھارتی آئین او رعالمی انسانی حقوق کی پاسداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں ہمیں بھارت کے اندر موجود ان متبادل آوازوں کو بھی داد دینی ہوگی جو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے مدنظر خاموش رہنے کے بجائے سڑکوں پر باہر نکلے ہیں اور مختلف انداز میں اپنا اپنا مزاحمتی پن پیش کررہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ اور بی بی سی نے بھی اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی گلیاں خاموش ہیں اور لوگوں کا غصہ بول رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کشمیر ایک غیر فعال آتش فشاں ہے اور اسے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے اور حالیہ مزاحمت ماضی کی تمام مزاحمتوں سے بڑی مزاحمت ہوگی۔
جس انداز سے برطانیہ، اٹلی، امریکا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، بیلجیم، جاپان، اسپین، جرمنی میں بھارت مخالف مظاہرے ہورہے ہیں اور دنیا بھر کے پارلیمنٹ کے ارکان اقوام متحدہ کو خطوط لکھ رہے ہیں اور جو انداز انسانی حقوق سے جڑی تنظیموں نے اختیار کیا ہے اس نے واقعی اس وقت بھارت کی حکومت کو عالمی دنیا میں سیاسی طو رپر تنہا کیا ہے۔ یہ جو حکمرانوں کی سطح پر عالمی خاموشی ہے یہ زیادہ دیر نہیں رہے گی کیونکہ جو عالمی بیداری مقبوضہ کشمیر کے حق میں اٹھ رہی ہے اسے روکنا اب کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس وقت زبردست ماحول ہے او رہم مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو عالمی دنیا میں ایک بڑی انسانی حقوق کی پامالی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کام سیاسی طو رپر تنہائی میں نہیں ہوگا اس کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو رائے عامہ کو بیدار کرنے اور ریاستوں پر دباو بڑھانے کے لیے ایک ایمرجنسی انسانی حقوق کی پامالی کے تناظرمیں ڈپلومیسی جنگ کو طاقت دینی ہوگی۔ تاکہ اس کارڈ کی مدد سے بھارت کو سیاسی طو ر پر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تنہا کیا جائے اور دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ انتہا پسندی اورانسانی حقوق کی پامالی کے کھیل کو بند کرے۔